سندھ کچے کے جنگلات شاہ بیلو میں ڈاکؤوں سے لڑتے ہوئے فائرنگ کے تبادلے میں ایک اور ایس ایچ او نے جام شہادت نوش کرلیا، شکارپور سندھ کا سب سے خطرناک ضلع ہے ۔ اب تک اس ضلع میں 108 پولیس افسران اور جوان شہید ہوچکے ہیں، اس ضلع کو تین انتہائی خطرناک کچے کے علاقے خان پور کا گڑھی تیغو ، شاہ بیلو ، مدیجی لگتے ہیں۔ اس کی سرحدیں سکھر ، گھوٹکی ، کشمور کے ساتھ ملی ہوئی ہیں، جہاں وسائل اور نفری زیادہ ہونی چاہیے، وہاں کی صورت حال اس حوالے سے بالکل ابتر ہے۔
شکارپور ضلع خاص طور پر کچہ امن و امان اور ڈاکو راج کے حوالے سے حکومت اور وزیر اعلی سندھ، آئی جی سندھ کے لیے توجہ طلب ہے، کیوں کہ اس ضلع کے کچے میں درجنوں ایسے ڈاکو اور متعدد خطرناک گینگز موجود ہیں، جن پر کڑوروں روپے انعام رکھا گیا ہے۔ ان ڈاکووُں کے پاس کچے میں لڑنے کے لیے گڑھے کھدے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس اینٹی ائیر کرافٹ گنز ، راکٹ لانچر دیگر دستی ساختہ جدید خطرناک خود کار ہتھیار موجود ہیں اور اس کے مقابلے میں پولیس کے پاس وہی روایتی پُرانا اسلحہ جو کہ ڈاکووُں سے مقابلے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔
اس ضلع میں 1800 سو پولیس اہل کاروں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں، اگر حکومت سندھ بھرتی نہیں کرسکتی، تو ڈی آئی جی یا ایس ایس پی کو بھرتیوں کا اختیار دیا جائے، تاکہ نفری کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ اس ضلع میں دس سے بارہ اے پی سی چین بکتر بند گاڑیوں کی ضرورت ہے اور پورے ضلع میں صرف تین اے پی سی گاڑیاں ہیں، جدید اسلحے کی اشد ضرورت ہے، لیکن وہ بھی نہیں ہے۔
ان نامساعد حالات کے باوجود شکارپور پولیس کا خطرناک ڈاکوؤں کے ساتھ سات گھنٹے طویل مسلسل فائرنگ کا تبادلہ ہونا شکارپور پولیس کی بڑی بہادری ہے، اس مقابلے کے دوران پولیس کی جانب سے روایتی اور ڈاکوؤں کی جانب سے جدید اسلحے کا استعمال کیا گیا۔ آپریشنل کمانڈر ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بہتر حمکت عملی کے ساتھ کام کیا اور ڈاکوؤں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن میں متعدد بدنام ڈاکو مار کر وہ کارنامہ انجام دیا، جو پولیس کئی دہائیوں میں نہیں دے سکی تھی، لیکن ان کی خدمات کا کیا صلہ ملا، کوئی پولیس میڈل یا اعزاز کے بہ جائے انہیں نظر انداز کیا گیا، جس طرح کی صورت حال دکھائی دیتی ہے، اس میں نہ تو حکومت، ڈاکو راج کے خاتمے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی یہ کبھی ختم ہوسکے گا، حالاں کہ یہ مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے ۔
دس ماہ قبل وزیراعلیٰ اور آئی جی سندھ نے شکارپور میں مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ شکارپور میں ڈاکوؤں کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے گا۔ ان کے قبضے سے ڈیڑھ لاکھ زرعی اراضی واگزار کرائی جائے گی اور پولیس کی تمام تر آپریشنل ضروریات کو پُورا کیا جائے گا، جس کے بعد وزیراعلی سندھ اور آئی جی سندھ کو اعتماد میں لے کر پولیس نے ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کیا ، جس کے کم وقت میں زیادہ مثبت نتائج سامنے آئے اور پولیس نے ریکارڈ کامیابیاں حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ پولیس فورس ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے اور بدنام زمانہ ڈاکووں کے خلاف آپریشن کی بھرپور صلاحتیں رکھتی ہے، لیکن 10 ماہ گزر جانے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے کوئی ایک وعدہ کسی ایک اعلان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، اس کے باوجود پولیس ڈاکووُں کے خلاف آپریشن میں مصروف عمل ہے۔
پولیس کے مطابق ایس ایس پی اور آپریشنل کمانڈر تنویر حسین تنیو کو گزشتہ دنوں یہ اطلاع ملی کہ بدنام زمانہ ڈاکو منیر مصرانی جس پر حکومت کی جانب سے ڈیڑھ کڑور روپے انعام مقرر ہے، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکارپور کچے کے علاقے شاہ بیلو میں موجود ہے، جس پر پولیس فورس نے آپریشن کا فیصلہ کیا اور علاقے کا گھیراو کیا، تو ڈاکوؤں نے دیکھتے ہی پولیس پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کردی۔ پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی اور کچے کا یہ علاقہ مسلسل سات گھنٹوں تک گولیوں کی تر تراہٹ اور راکٹ لانچر کے گولوں سے گونجتا رہا۔
فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایس ایچ او چک عبدالغنی جیہو شہید ہوگئے، جس کی نماز جنازہ شکارپور پولیس لائن میں ادا کی گئی، جس میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو سمیت دیگر پولیس افسران جوانوں ملازمین شہید کے اہل خانہ عزیر و اقارب دوست احباب اور علاقے کے لوگوں نے شرکت کی۔ شہید کو مکمل سرکاری اعزار کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا،اس موقع پر ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ شہید ایس ایچ او عبدالغنی جیہو ایک بہادر افسر تھے، جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ڈاکوؤں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ انسانی جان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ تاہم محمکہ پولیس کی جانب سے شہید کے ورثاء کو ایک کڑور روپے اور دو ملازمتیں دینے کا اعلان کیا گیا ہے، ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس کی جنگ جاری ہے اور آخری ڈاکو کے خاتمے تک ہماری جنگ جاری رہے گی۔‘‘
جب تک پولیس مستقل موجود رہے گی، تو ڈاکو خود بہ خود کم ہوتے رہیں گے۔ پولیس کی موجودگی کے لیے خصوصی اسٹیکچر کی فوری ضرورت ہے، ایسی بلڈنگیں بنائی جائیں، جو سیلاب میں بھی موجود ہوں، کیوں کہ 6 سے 8 ماہ کچے میں جو پانی آتا ہے، اس کے دوران یہ مستقل چوکیاں قائم اور ان میں پولیس جوان موجود رہیں، یہ سارا انتظام کوئی ایس ایس پی نہیں کرسکتا۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ ضلع میں اتنے بدترین حالات ہیں کہ پولیس کو 10 سے 12 اے پی سی گاڑیوں کی ضرورت ہے، لیکن پورے ضلع میں تین اے پی سی گاڑیاں ہیں، یہ کوئی عام ضلع نہیں، بلکہ امن و امان کے حوالے سے پُورے سندھ میں انتہائی اہم ضلع ہے۔ اس کو اہمیت بھی اسی حساب سے دینا پڑے گی۔
9 ماہ پہلے حکومت نے ایک اینٹی ڈکیت آپریشن کے ماہر کی شہرت رکھنے والے ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو تعینات کردیا تھا، جس نے نامساعد حالات کے باوجود اپنی حکمت عملی اور ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے 25 ڈاکو، جن میں جھنگل تیغانی اور جان محمد تیغانی سمیت متعدد بدنام ڈاکو شامل تھے، مارے اور متعدد زخمی حالت میں گرفتار کئے اور امن و امان کی صورت حال کو بہتر کرنے کی کوشش کی اور بڑی حد تک امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔
اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہائی وے کرائم منشیات اور دیگر جرائم کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی، لیکن یہ سب کچھ بھی ایک ایس ایس پی کے بس کی بات نہیں، جو اس نے کر دکھایا، کیوں کہ ڈاکوؤں اور پولیس کے پاس موجود اسلحے کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ڈاکو کچے میں گھروں میں محفوظ رہ کر لڑتے ہیں، لیکن پولیس کے پاس ایسی اونچی پختہ بلڈنگز نہیں ،جہاں مورچے بناکر پولیس لڑ سکے۔ حکومت اگر سنجیدہ ہے تو پولیس کی آپریشنل ضروریات کو مکمل طور پر پُورا کرے اور پولیس کمانڈر کو کہا جائے کہ یہ آپ کے مطلوبہ وسائل ہیں جاؤ کام کرو اور نتائج دو، لیکن اگر حکومت ایس ایس پی کو کہے کہ آپ بڑے توپچی ہو جاو جاکر بندوق چلاؤ تو وہ کتنی بندوق چلا لے گا۔
حکومت کی مکمل سپورٹ کے بغیر ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن اور ڈاکو راج کا خاتمہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس لیے صوبائی حکومت کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ ڈاکو راج کا خاتمہ چاہتی ہے، اگر چاہتی ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ آپریشن کی صورت میں پولیس افسران اور جوانوں کی جانوں کو محفوظ بناتے ہوئے ڈاکو راج کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔
اس ضلع میں ایک ڈی ایس پی متعدد ایس ایچ او سمیت 108 پولیس افسران اور جوان شہید ہوچکے ہیں اور تین سال سے پولیس کے بالا افسران حکومت کی توجہ اس جانب کروا رہے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ ہے، لیکن حکومت نے تاحال اس کا اب تک نوٹس نہیں لیا، دیکھنا یہ ہے کہ کب حکومت کچے میں سڑکیں پکے تھانوں پولیس چوکیوں پولیس فورس کی کمی کو پورا کرنے اور پولیس کے لیے جدید گاڑیوں اور اسلحے کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے یا پھر یہ سسٹم یُوں ہی چلتا رہے گا!! فیصلہ حکومت نے کرنا ہے، اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔