اسلام آباد (عمر چیمہ) وزیراعظم شہباز شریف اپنی اس بیوروکریٹک ٹیم کو برقرار رکھیں گے جو کہ ان کے ساتھ اس وقت کام کررہی تھی جب وہ وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر توقیر حسین شاہ کو وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری تعینات کر دیاگیا ہے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان کی تقرری کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ فواد حسن فواد جو کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ، ان کے بھی شہباز شریف کی ٹیم میں شمولیت کا امکان ہے۔ دونوں افسران ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جسے اب پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کہا جاتا ہے۔ ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی ڈاکٹر توقیر کا نام تجویز کیا تھا۔ 2017 کے بعد سے جب شریف خاندان کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئی تھیں اس وقت سے ہی مذکورہ دونوں افسران کے خلاف بھی کارروائیاں شروع ہوئی تھیں، ڈاکٹر توقیر حسین کو پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹایا گیا اور ان کا نام ماڈل ٹائون کے سانحے میں شامل کیا گیا جس میں پاکستان عوامی تحریک کے 14 افراد پنجاب پولیس کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے تھے۔ بعد ازاں انہیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) جنیوا میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر ڈاکٹر اسد مجید جو کہ اب حکومت تبدیلی کے حوالے سے مبینہ امریکی دھمکی کے تنازعے میں مرکزی کردار ہیں، انہیں بھی اس عہدے کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، تاہم، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے انہیں واپس جانے سے روک دیا تھا کیوں کہ ان کا نام ماڈل ٹائون سانحے میں شامل تھا اور وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے تھے۔ ڈاکٹر توقیر حسین 2020 میں دوبارہ ہیڈلائنز میں اس وقت آئے جب وزیراعظم عمران خان نے ان کی تقرری بحیثیت وفاقی سیکرٹی صحت کے طور پر کی لیکن تنقید کے بعد اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ حالاں کہ ان کے نام کو حتمی شکل مروجہ طریقہ کار کے بعد دی گئی تھی، جس کی سربراہی وزیراعظم کے معاون برائے بیوروکریسی شہزاد ارباب ، سابق وفاقی وزیر شفقت محمود اور ڈاکٹر عشرت حسین نے دی تھی جو کہ اس کمیٹی کا حصہ تھے۔ ان کی ایمان داری پر کبھی شکوک و شبہات نہ کیے گئے۔ البتہ شہباز شریف کے ساتھ ان کے فرائض منصبی ادا کرنے کی وجہ سے ن لیگ کے مخالفین کی آنکھوں میں وہ کھٹکتے تھے۔ فواد حسن فواد کی قسمت اس سے کچھ مختلف نہیں تھی بلکہ وہ نیب ملزم ہونے کی وجہ سے جیلوں میں رہے، ان پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات تھے، جب کہ حکومت پنجاب کے آشیانائے اقبال ہائوسنگ منصوبے کے حوالے سے بھی ان پر الزامات تھے۔ لیکن ان کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ وہ جیل میں ہی تھے جب سروس سے ریٹائرڈ ہوئے۔ جب کہ بیوروکریٹ کے طور پر ان کی حیثیت پر بھی کسی قسم کا شک نہیں ہے۔