• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کے صدر ولایمر پیوتن پر امریکا نے نئی سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں جن میں ان کے اہل خانہ کی ملکیتوں اور بینک بیلنس کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکا خفیہ ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ روسی صدر پیوتن دنیا کے سب سے امیر آدمی ہیں ان کی دو سگی بیٹیاں کیترینا پیوتن اور ماریا پیوتن ہے کےنام بھی بڑی بڑی رقومات غیر ملکی بینکوں میں جمع ہیں۔ صدر پیوتن کے ساتھ ان کی دونوں بیٹیوں کے اکائونٹ بھی منجمد کردیئے گئے ہیں۔ صدر پیوٹن نے جب وہ کے بی جی کی ملازمت کرتےتھے ، لیڈی لیڈمیٹا سے شادی کرلی تھی جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ 

یوکرین سے تائیوان تک ہوگا کیا ؟

بعدازاں 2004 میں پیوتن لیڈی سیڈمیٹا کو طلاق دیدی۔ دونوں بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شادی شدہ ہیں۔ بڑی بیٹی ماریا میڈیکل ریسرچر ہے اور چھوٹی بیٹی ایکرو بینک ڈانسر ہے۔ دونوں ماسکو ہی میں مقیم ہیں مگر ان کو خاص سیکورٹی کے دائرے میں رہنا پڑتا ہے۔ بڑی بیٹی کا شوہر جو ہالینڈ کا رہنے والا ہے۔ آرکیٹکٹ ہے۔ چھوٹی نے ابھی شادی نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ صدر پیوتن ان کو پبلک میں کم کم آنے دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی صدر پیوتن اور ان کے اہل خانہ کی املاک اور بینکوں میں رقومات کی باریک بینی سے چھان بین کرہی ہے۔ 

ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ صدر پیوتن کی سرکاری تنخواہ 187 ہزار ڈالر سالانہ ہے جبکہ محض کیش کی شکل میں ان کاسرمایہ 70 ارب ڈالر سے تجاوز کررہاہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے ترکی، یونان اور اٹلی میں لگژری اپارٹمنٹس خریدے ہیں جو بہت مہنگے ہیں۔ مزید کی تلاش جاری ہے۔ یہ رپورٹ معروف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے شائع کی ہے۔ صدر پیوتن 1952 میں اسٹالن گراڈ میں پیدا ہوئے۔ والد نیوی میں مترجم تھے والدہ فیکٹری ورکر تھیں۔ بچپن قدرے تکلیف میں گزرا۔ 

تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں کے بی جی میں ملازمت مل گئی۔ وہ وہاں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1911 میں سویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد انہوں نے اسٹالن گراڈ کے میئر کے دفتر میں ملازمت کرلی۔ اس دفتر میں انہوں نے عوامی مزاج اور مسائل کا جائزہ لیا اور پھر سال 2000 میں وہ عملی سیاست میں آگئے۔ اسی سال سابق صدر یلسن نے انہیں وزیراعظم مقرر کیا۔ صدر یلسن کے بعد پیوتن صدر بن گئے اور سال 2008 تک صدر رہے پھر بیچ میں انہیں اس عہدے سے الگ ہونا پڑا 2012 سے وہ روس کے صدر ہیں۔ روس جن یورپی ممالک کو گیس فراہم کرتا ہے صدر پیوتن نے ان ممالک کے ساتھ اپنے ذاتی مراسم قائم کر رکھے ہیں، جیسے جرمنی، فرانس، ہالینڈ، بیلجیئم وغیرہ۔

صدر پیوتن کو باکسنگ، سائیکلنگ اور جوڈو کراٹے کا بہت شوق ہے وہ اکثر شام کو تنہا سائیکل پر وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں نوجوان باسکٹ بال والی بال یا فٹ بال کھیل رہے ہوتے ہیں وہ ان نوجوانوں میں گھل مل جاتے ہیں کچھ دیر ان کے ساتھ کھیلتے ہیں اگپ شپ کرتے ہیں اس حوالے سے وہ نوجوانوں اور عوام میں مقبول ہیں۔ 

روس میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔ وہ خبریں اور تصاویر شائع کی جاتی ہیں جو میڈیا کو متعلقہ محکمے فراہم کرتے ہیں۔ صدر پیوتن اور ان کی عام سرگرمیوں کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔ تعلیم کا نظام اچھا ہے۔ صحت عامہ کے شعبے فعال ہیں۔ ان دو حوالوں سے عوام کو بڑا ریلیف حاصل ہے اور تعلیم صحت دونوں شعبے مفت خدمات فراہم کرتے ہیں۔ روسی انفرااسٹرکچر جدید ہے۔ ریلوے، بور انڈر گرائونڈ ریلوے کا نظام دینا میں مانا جاتا ہے۔

روس بہت بڑاملک ہے، رقبہ ایک کروڑ اکہتر لاکھ مربع کلو میٹر ہے جبکہ آبادی ساڑھے چودہ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ روس جدید ہتھیاروں کی تیاری پر زیادہ محنت اور سرمایہ صرف کررہا ہے۔ اس کی مجموعی سالانہ آمدنی میں پہلا حصہ ہتھیاروں، دوسرا حصہ قدرتی گیس اور تیل کی فراہمی پر انحصار کرتا ہے۔ روس کے پاس جدید ٹیکنالوجی، سائبر اور خلائی ٹیکنالوجی امریکا سے بہتر ہے خلائی دوڑ میں روس پہلے نمبر پر تھا مگر اتنا سرمایہ صرف کرنامشکل تھا کہ وہ انسان کو چاند پر بھیج سکتا مگر روس نے امریکا سے پہلے چاند کی مٹی اور پتھر حاصل کرلئے تھے۔

حالیہ دنوں میں روس یوکرین جنگ کی وجہ سے مغربی ملکوں پر طرح طرح کی اقتصادی اور سماجی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس حوالے سے روسی صدر پیوتن نے جوابی کارروائیوں کا بھی عندیہ دیا۔ پہلے انہوں نے ایک حکم نامے کے زریعہ روس سے تیل اور گیس خریدنے والے ممالک کو پابند کیا کہ وہ ڈالر کے بجائے روبل میں ادائیگی کریں اور اس اعلان کے بعد سے مغرب کے ایوانوں اور حصص مارکیٹ میں ایک ہلچل سی دکھائی دے رہی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ صدر پیوتن نے اپنے سب ہی صلاح کاروں کو کہا ہے کہ روس اپنی طرف سے جوابی پابندیاں کن کن اشیا پر عائد کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں غور ہورہا ہے۔

یورپی ممالک میں بیشتر روس سے گیس خرید رہے ہیں ہر چند کہ وہ بھی پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں مگر روسی گیس کے بغیر فی الفور ان ملکوں کا کام نہیں چل سکتا۔ ہر چند کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یورپی ملکوں کو روس سے لین دین نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے اور ان ممالک کو امریکا سے قدرتی گیس اور تیل کی خریداری کا مشورہ دیا ہے۔

اس حوالے سے قطر کے وزیر پیٹرولیم سعد عزیز نے کہا کہ امریکا نے ہمیں کہا کہ یورپ کو گیس اور تیل کی فراہمی میں اضافہ کریں تاکہ روس سے یورپی ممالک پر سے انحصار ختم کیا جاسکے۔ اس ضمن میں کام شروع ہوچکا ہے چار سال بعد قطر سے یورپ تک گیس اور تیل کی لائنیں بچھادی جائیں گی۔ تاہم اس ضمن میں قطر ہی سرمایہ کاری کررہا ہے۔لیکن روسی قدرتی ذخائر کا پہلا اور بڑا ملک ہے اس کے پاس قدرتی گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ 

ایک سروے کے مطابق روس کے پاس قدرتی گیس کے علاوہ لوہا، کوئلہ، تانبا، سونا، نکل اور دیگر معدنیات وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ صدر پیوتن جانتے ہیں کہ اگر روس نے اپنی معدنیات نکال کر اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنی شروع کردیں تو وہ دنیا کا امیر ترین ملک بن جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں روسی صدر پیوتن بہت سنجیدگی سے کام کررہے ہیں اور وزارت خزانہ میں ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے جس کا کام قدرتی وسائل کے بارے میں تفصیلی رپورٹ تیار کرنا ہے۔ عام طور پر یورپی مبصرین کہتے ہیں کہ روسی صدر نے یوکرین پر حملہ کرکے تین بنادی فواعد حاصل کئے ہیں۔

پہلا روس کی طاقت اور عالمی حیثیت کا احیاء دوسرے روس کے جدید ہتھیاروں کی نمائش اور ٹیسٹنگ ،تیسرے چین کی خواہش کہ یوکرین پر روس کے حملے کے جواب میں مغربی ممالک کے ردعمل کی جانچ کرنا ہے۔ ایک طرح سے روس نے یوکرین پر حملہ کرکے تینوں اہداف پورے کرلئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغربی ممالک کا ردعمل یوکرین کے مسئلے پر چین کی توقعات کے مطابق رہا ہے۔ 

پیلپز ڈیلی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ روس کے یوکرین کے حملے کو یورپی یونین نے تشویش ناک کہا، مگر امریکا نے وہ ردعمل ظاہر نہیں کیا جو امریکی صدر اور وزیر دفاع کے اولین بیانات سے ظاہر ہوتا تھا اخبار کا خیال ہے کہ امریکا کو زیادہ فکر تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کی ہے جبکہ نیٹو ممالک کو تائیوان کی زیادہ فکر نہیں وہ یورپی خطے میں روس کی بالادستی کو تشویشناک تصور کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ فرانس، جرمنی، آسڑیا وغیرہ نے کہہ دیا ہے کہ ہمارے چین سے گہرے تجارتی تعلقات ہیں ایسے میں ہم تائیوان کے مقابلے میں یورپی خطے کی فکر کرتے ہیں۔

امریکا کے لئے یوکرین سے زیادہ اہم ہے۔ تائیوان کا مسئلہ کیونکہ امریکا اور تائیوان کا پرانا معاہدہ ہے۔ تائیوان کی سیکورٹی میں امریکا حصہ دار ہے۔ پھر جنوبی بحیرہ چین میں تائیوان بھی چین کے قبضے میں چلا گیا تھا امریکا کے لئے ملا کا بحری روٹ جو بحرالکاہل اور بحر ہند کو آپس میں ملاتا ہے اور انہی روٹ سے دنیا کی 34 فیصد تجارت ہوتی ہے اس پر چین کا قبضہ ہوگیا تو آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، جاپان سمیت مشرق بعید کے دیگر ممالک بھی چین کے محتاج ہوکر رہ جائیں گے۔ 

ایسے میں امریکا کے لئے تائیوان بڑا حساس مسئلہ ہے جبکہ چین کے لئے بھی یہ ایک حساس مسئلہ ہےاس لئے چین نے اس خطے میں پوری تیاری کر رکھی ہے۔ قوی امکان ہے کہ چین نے اگر تائیوان پر حملہ کردیا تو امریکا خاموش نہیں رہے گا۔ایسے میں دنیا بخوبی اندازہ کرسکتی ہے کہ پھر اسی خطے میں کیا کچھ ہوگا۔ بڑی لڑائی زیادہ تر بحرہند میں لڑی جائے گی۔ چین کی عسکری حکمت عملی میں امریکا ثانوی حیثیت رکھتا ہے وہ کوشش کرے گا کہ بھارت کو مفلوج کردے تاکہ خطے میں موجود بڑا خطرہ ٹل جائے پھر امریکا سے لڑنا چین کے لئے آسان ہوگا۔ 

واضح رہے کہ چین ساتوں سمندروں میں موجود ہے اور اس نے اپنی بحری قوت میں امریکا سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ بحرالکاہل اور بحرہند دونوں طاقتوں کی زور آزمائی کا اکھاڑہ بنے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین بحر ہند میں اپنا غلبہ پانے کی کوشش کرے گا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حوالے سے روس اس کی کس حد تک مدد کرتا ہے اگر ایسا ہوا تو پھر اس تمام خطے میں جو ہوگا وہ اچھا نہیں ہوگا۔

تازہ خبروں کے مطابق چین اپنی جنگی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے اس کا اندازہ ایسا ہی ہے جیسے روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور تاحال جنگ جاری ہے۔ مبصرین کہتے ہیں یہ بھی روس اور چین کی مصلحت پسندی ہوسکتی ہے کہ یوکرین میں جنگ کو طول دے کر نیٹو کو اوپر مصروف رکھا جائے اوپر چین تائیوان پر قبضہ کرے۔ 

امریکا کو ایسی صورت میں نیٹو ممالک سے بہت کم مدد ملنے کی امید ہے۔ یورپی یونین کے چند اہم ممالک پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ انہیں تائیوان کے مسئلے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف اور صرف یورپ کے دفاع کو ضروری تصور کرتے ہیں۔ روس پر مزید پابندیوں کا بھی لگتا ہے زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیونکہ چین ہر طرح سے روس کی مدد کرنے پر کمربستہ ہے۔

اب جبکہ روسی صدر پیوتن اور ان کے اہل خانہ مغرب نے اقتصادی اور سماجی پابندیاں مزید سخت کردی ہیں تو پھر ہوسکتا ہے کہ روس بھی اس کا کوئی سدباب تلاش کرے۔ جاری حالات میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ عالمی صورت حال مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران چین کے صدر شی چن پنگ نے جو بیانات دیئے اور چین کی عسکری قوت کا اشارہ کیا تب ہی سے لگ رہا تھاکہ خطے میں کچھ نہ کچھ ہونے جارہا ہے۔ اب روس بھی اس میں شامل ہے۔