وسیم قریشی
ہمارے مذہب اسلام میں، جو کہ دین فطرت ہے، والدین کی عزت اور تکریم کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو باقاعدہ ثواب کا درجہ دیا گیا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اولاد کو والدین کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا حق بیان کرنے کے بعد والدین کا حق بیان کیا ہے۔
والدین کے حقوق و احترام کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کے مرکزی ستون کو ڈھا دیا، جس کے بعد اس کے کھڑے رہنے اور کش مکش حیات میں ثابت قدم رہنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ اگر اللہ تعالی نے والدین کے دل میں اُن کی اولاد کےلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھا ہوتا تو یقیناً بچہ کی صحیح معنون میں پرورش و تربیت نہ ہو پاتی۔اب اگر بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یار ومددگار چھوڑ دے، اُن کےساتھ حُسن سلوک سے نہ پیش آئے، ان کی گستاخی و بے ادبی کرے تو اسے کیا کہیں گے۔ اسی تناظر میں ایک قصّہ جو میرے دادا ابو سنایا کرتے تھے آج کل اکثر گھرانوں میں اولاد کا اپنے والدین سے غیر اخلاقی سلوک دیکھ کر یاد آیا وہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
قصّہ کچھ یوں ہے،دادا ابو کے محلے میں ایک خاندان رہتا تھا جو میاں ،بیوی ، بچے اور بوڑھے والد پر مشتمل تھا۔ بہو اپنے سسر سے بہت تنگ تھی، روز جھگڑے ہوتے تھے۔ شوہر جیسے ہی گھر میں قدم رکھتا تو بیوی کہتی،’’ تم اپنے ابا کو گھر سے نکال دو مجھ سے ان کے کام نہیں ہوتے۔ یہ بوڑھا سارا دن کھانستا اور تھوکتا رہتا ہے، مجھے گھن آتی ہے۔‘‘
ایک دن شوہر گھر آیا تو اس کی بیوی گھر چھوڑ کر جا چکی تھی اور یہ پیغام چھوڑ گئی کہ ،’’جب اپنے ابا کو گھر سے نکال دو تو سندیسہ بھیج دینا میں خود ہی واپس آ جاؤں گی‘‘۔
بیٹے نے مجبوراً اپنے ابا کو کندھوں پر اٹھایا اور جنگل کی طرف لے گیا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ بیٹے نے ایک درخت کی چھاؤں میں ابا کو بٹھا کر معافی مانگی اور جانے کےلئے کھڑا ہوا۔ باپ ایک مرتبہ رویا اور پھر مسکرانے لگااور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بیٹھ گیا۔ بیٹا بہت حیران ہوا ، باپ کے پاس بیٹھ کر رونے اور پھر مسکرانے کی وجہ دریافت کی تو باپ نےجواب دیا ،” بیٹے، میں نے بھی اپنے باپ یعنی تمہارے دادا کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔
وہ وقت یاد آ گیا تو آنکھوں سے آنسو نکل آئے، مجھ پر جب ایسا ہی وقت پڑا تھا جو آج تم پر پڑا ہے تو میں اپنے باپ کو دھوپ میں بٹھا کر واپس چلا گیا تھا جب کہ تم نے مجھے درخت کی چھاؤں میں بٹھایا۔ اس بات پر مسکرا دیا کہ میں اپنے باپ کی نسبت خوش نصیب ہوں‘‘۔ یہ سب سننے کے بعد باپ، بیٹا ایک دوسرے کےگلے لگ کر رونے لگے۔ بیٹے نے باپ کو واپس کندھوں پر اٹھایا اور گھر آ گیا۔ بیگم کے گھر جا کر کہا،’’میرا باپ میرے پاس ہی رہے گا۔ میں اپنی آخرت اور بڑھاپا اپنے باپ کی طرح تباہ نہیں کر سکتا‘‘۔ بیگم بھی اگلے دن واپس آ گئی اور سسر سے معافی مانگ کر اس کی خدمت شروع کر دی۔
دادا ابو کہتے تھے” تب عورتیں بھی ایسی سمجھدار ہوتی تھیں اور لوگوں میں خوف خدا بھی ہوتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد باپ کہاں جائے؟ کیا اسے گھر سے نکال دینا چاہیے؟
ہمارے بزرگ ہمارا اثاثہ ہوتے ہیں۔ کئی لوگ شاید جائداد کو وراثت سمجھتے ہیں لیکن میری نظر میں ان سے بڑی وراثت اور ان سے زیادہ قیمتی اثاثہ کچھ اور نہیں ۔
یاد رکھیے کہ ،آپ نے بھی ایک دن بوڑھے ہونا ہے۔ سدا جوان نہیں رہیں گے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دن بڑھاپا آپ کو گلے سے لگانا پڑے گا ورنہ یہ زبردستی آپ کے گلے لگ جائے گا۔ آپ کی گود میں آ کر کسی ضدی بچے کی طرح بیٹھ جائے گا۔ ایک دن محتاجی آپ کو اپنے شکنجے میں لے گی اور آپ اس وقت سہارا تلاش کریں گے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب آپ کو اپنے بولے گئے جملے شدت سے یاد آئیں گے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ لہو ٹپکے گا۔ آپ کی آنکھوں میں خوابوں کی جگہ ندامت ہوگی۔
تب آپ یقیناً سمجھ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھے والدین کی خدمت اور دیکھ بھال میں کون سا مقصد پوشیدہ رکھا ہے۔ آج کے بیش تر نوجوان، والدین، اساتذہ اور پڑوسیوں کا احترام کرنا بھول چکے ہیں۔ ان تمام رشتوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔ بزرگوں کی دعاؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اپنے والدین ، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام کیا، کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ ان کو زندگی کے ہر موڑ پرخوشیاں نصیب ہوئیں۔ قدرت ایسے لوگوں کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دورکر دیتی ہے ۔
نوجوانو! والدین کی خدمت کریں، ان کی دعائیں لیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بوڑھے والدین کا سایہ گھر میں بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں، آج آپ اپنے والدین کی خدمت کریں گے تو کل یہ اولاد کی صورت میں آپ کو واپس ملے گی۔ آج آپ اپنی کچھ خواہشات کو چھوڑ کر ان کا سہارا بن جائیں تو کل آپ کی اولاد بھی آپ کے لیے یہی قربانی ہنسی خوشی قبول کرے گی۔
آج آپ ان کی باتوں کو عمر کا تقاضا سمجھ کر نظر انداز کر دیں یا صبر کر لیں تو کل جب آپ بڑھاپے میں داخل ہوں گے تو آپ کی اولاد بھی صبر کرے گی لیکن آج آپ، ذاتی زندگی، میری خواہشات، میرے جذبات واحساسات کا ماتم کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کو دھتکار دیں گے تو کل یہی سب آپ کو پلٹ کر واپس ملے گا اب سوچنا آپ کا کام ہے۔