• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کی زندگی میں ایک موڑ ایسا آتا ہے جب وہ خوابوں اور امّیدوں کے کھلے آسمان میں اڑان بھرنے کے لئے بے تاب ہوتا ہے، اسی بلند پروازی اور بلند ہمّتی کا نام نوجوانی ہے۔ اس دور کو زندگی کی بہار سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، جہاں تخلیقی صلاحیتیں نقطہ عروج پر ہوتی ہیں۔ یہ ضوفشاں دور وہ دور ہے کہ جو اپنی کم طوالت کے باوجود انسان کی پوری زندگی پر طویل المیعاد اور دائمی اثرات مرتب کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اور تعمیر و ترقی کا بنیادی ستون نوجوان ہوتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جو ممالک نوجوانوں کو صحیح سمت کاتعین کرتے ہیں وہ زیادہ ترقی یافتہ ہیں، اس کے برعکس جو ممالک نوجوانوں کی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں وہ زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمی سے ہمارے ملک میں اس افرادی قوت کو ابھرنے اور مناسب ماحول میں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل رہا۔ ان کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن نوکریاں نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی ترقی میں حکومتیں نوجوانوں کے کردار کو تسلیم کرنے میں کافی سست روی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ وسائل اور ٹیلنٹ کے باوجود پاکستان ابھی تک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

زندگی کے کسی بھی شعبے میں تعلیم و تحقیق کے بغیر ترقی ممکن نہیں، جتنے زیادہ تعلیم یافتہ افراد ہوں گے، ترقی اور خوشحالی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ تعلیم کی وسعت نے آج کے نوجوان کے سامنے نئے افق نمودار کر دئیے ہیں۔ ان کے سامنے لاتعداد نئے سوالات جنم لیتے ہیں لیکن ان پر غور و فکر کرنے کے بجائے آج کے نوجوانوں نے خود کو موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک محدود کر لیا ہے۔ 

وہ یہ نہیں سمجھتے کہ زندگی سے ہدف ختم ہو جائے تو زندگی بےمعنی ہو جاتی ہے۔ جب کرنے کو کچھ نہ ہو تو موبائل، سوشل میڈیا وغیرہ ہی میں اُلجھے رہیں گے، دل و دماغ میں منفی خیالات بھی آئیں گے۔ اب تو رہی سہی کسر ٹک ٹاک نے نکال دی ہے۔ اس افرادی قوت کا اس طرح ضائع ہونا وطنِ عزیز کے لئے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

اگرچہ نت نئی ایجادات کے ہوتے ہوئے کسی کو زنجیروں سے باندھ کر نہیں رکھا جاسکتا لیکن انہیں مناسب پلیٹ فارم مہیا اور انہیں پیشہ وارانہ تعلیم سے آرستہ کرکے آن لائن بزنس کی طرف راغب تو کیا جا سکتا ہے۔ سب سے قیمتی چیز وقت ہے، جس کا مثبت استعمال کر کے ہی نوجوان اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ملک کو ترقی یافتہ قوم بنانے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن کر کچھ نہیں رہے، جو کرنا چاہتے ہیں، انہیں غربت اور بے روزگاری نے مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ مایوسی سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے۔

حکام کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ہمارے تعلیم یافتہ، باصلاحیت نوجوان روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کیوں کررہے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کے ٹیلنٹ کی قدر کیوں نہیں ہوتی یہاں سوال یہ بھی پیداہوتا ہے کہ یہ فٹ کہاں ہوں، نہ ہی نئی صنعتوں کا قیام عمل آیا اور نہ روز گار کے ذرائع میسر ہیں اگرچہ دیکھا جائے تو جو الیکٹرانک سامان دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں وہ یہاں کے ہنر مند نوجوان بنا سکتے ہیں لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ اُن کو اپنے ملک میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہی نہیں ہیں ، ان حالات سے تنگ آکر بیش تر نوجوان دیارِ غیر جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جہاں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، جہاں وہ اپنے خوابوں کی دنیا بسا لیتے ہیں اور یوں ملک ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال نوجوانوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ 

حکومت کا فرض ہے کہ وہ باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ یوتھ منسٹری کو فعال بنائے اور طویل المیعاد معاشی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور و فکر کرے نئی صنعتوں کا قیام عمل میں لائے، نیز ہر تعلیمی ادارے میں کم از کم ایک ایسی رضاکار طلبہ تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے۔ نوجوانوں کو رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دے۔

نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کرنا کیا ہے؟ اور اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئیں، اپنی ثقافتی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کریں، اپنے ارادے کو بروئے کار لائیں، اپنی شخصیت اور اپنی خود مختاری کو اہمیت دیں۔