• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمان یوسف

احمد صاحب ! اپنے بیٹے ارمان کو لینے میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنے دوست شیراز سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ ”ارےارمان ! تم کل اسکول کیوں نہیں آئے؟“ شیراز نے باتوں باتوں میں پوچھا۔

”وہ دراصل ،“ ارمان سے کوئی جواب نہ بن پارہا تھا۔” ہاں وہ بات یہ ہے کہ کل مجھے سر درد تھا اور معمولی بخار بھی، جس کی وجہ سے میں اسکول نہیں جاسکا‘ ‘، اس نے جھوٹ بولا۔ احمد صاحب کو دکھ ہوا وہ افسوس کرنے لگے کہ اُن کا بیٹا جھوٹ بولتا ہے ۔

دونوں باتوں میں اتنے مشغول تھے کہ ، انہیں یہ خبر نہ ہوئی کہ احمد صاحب اُن دونوں کی گفتگو سن رہے ہیں۔

” ارمان تمہارے ابو آئے ہیں۔“ شیراز نے احمد صاحب کو دیکھ لیا تھا۔ ”چلو بیٹا، شام ہوگئی ہے گھر چلو“ وہ بظاہر تو مسکرا کر بولے لیکن اندر سے بہت دکھی بھی تھے۔

”جی ابو! یہ کہہ کر ارمان ان کے ساتھ چل دیا۔ ”تم نے شیراز سے جھوٹ کیوں کہا کہ تمہیں بخار تھا، جبکہ تم نے تو ایسے ہی چھٹی کرلی تھی۔“ راستے میں احمد صاحب نے اُس سے پوچھا”وہ وہ ابو! چھوٹے موٹے جھوٹ تو آج کل کے زمانے میں چلتے ہیں۔‘‘ ارمان نے کہا۔

’’لیکن تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جھوٹ بولنا برے بچوں کا کام ہے، آپ تو اچھے بچے ہونا!“ ابو نے مسکرا کر کہا۔

”جی ابو میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولو گا۔“ ”بہت خوب“ ابو نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔

” دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ”ارمان بیٹا! جاکر دیکھو کون آیا ہے!“ ابو نے آواز دے کر کہا”جی ابو!“ ارمان دروازہ کھولنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو بولا: ”ابو ! آپ کے دوست اصغر انکل آئے ہیں‘‘۔

”اوہو! جب دیکھو پریشان کرنے چلا آتا ہے‘پتہ نہیں اور کام نہیں ہوتے اِسے‘ ۔ ابو غصے سے بول رہے تھے۔ ”ارمان اِن سے کہو ابو دفتر سے ابھی نہیں لوٹے۔“ وہ دروازے پرگیا اور کہنے لگا؛ انکل ابو جان نے آپ کو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا ہے کہ اُن سےجاکر کہہ دو کہ ابو دفتر سے نہیں لوٹے‘ معلوم نہیں اُنہوں نے جھوٹ کیوں بولا‘ ویسے وہ مجھے جھوٹ نہ بولنے کی تلقین کرتے ہیں۔“ ارمان نے اداس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

اصغر کو جھٹکا لگا اور وہ حیران ہو کر بولے،“ کیا؟ احمد مجھے برا بھلا کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے‘مجھے اُس سے یہ اُمید ہرگز نہیں تھی۔ دکھی ہوکر واپس چلے گئے اور ارمان بھی اپنے دماغ میں کئی سوال لئے کمرے میں آگیا۔

رات کو کھانے کے بعد احمد صاحب کے موبائل پر گھنٹی بجی، اُنہوں نے اسکرین پر دیکھا تو اصغر لکھا تھا۔ اُنہوں نے کال ریسونہ کی ،مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے کال ریسوکی اور فون کان سے لگا کر ”ہیلو“ کہا۔

دوسری جانب اصغر کی افسوس اور دکھ بھری آواز آئی،’’ احمد ! تم سے یہ امید نہیں تھی تم نے مجھے برا بھلا کہا‘ تمہارے بیٹے نے مجھے سب بتا دیا اصل بات تو یہ ہے کہ تم دوستی کے لائق نہیں ہو، تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہو آج سے دوستی ختم! ”اتنا کہہ کر اصغر نے فون بند کردیا۔

احمد صاحب کوارمان پر غصہ آیا‘انہوں نے اُسے بلایا اور ڈانٹتے ہوئے کہا، ”تم نے اصغر کو ہر وہ بات بتادی جو میں نے اس کے بارے میں کہی تھی۔“ ”ابو! آپ بھول گئے؟ “جواب دینے کی بجائے ارمان نے اُلٹا سوال داغ دیا”کیا؟“ ابو! آپ پرسوں والی بات بھول گئے، جب میں نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا تو آپ نے مجھے نصیحت کی کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہییے، آپ نے مجھے تو جھوٹ بولنے سے روکا تھا، مگر خود اپنے دوست سے جھوٹ بولا اور مجھ سے بھی کہاکہ اُن سے جھوٹ بول دوں کہ آپ ابھی دفتر سے نہیں لوٹے‘ آپ نے مجھے تو نصیحت کی لیکن خود عمل نہیں کیا۔ جس دن آپ نے مجھے جھوٹ بولنے سے روکا تھا، اسی دن سے میں جھوٹ سے نفرت کرتا ہوں اور سچ بولتا ہوں‘ اِس لیے میں نے اصغر انکل سے سب کچھ سچ کہہ ڈالا۔

“ارمان نے اس قدر معصومیت سے کہا کہ احمد صاحب کو اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔”بیٹے! تم سچ کہتے ہو‘ میں نے جھوٹ بولا، اب میں بھی تمہاری طرح سچ بولوگا۔“

”ابو ہم کل جا کر اصغر انکل کو منائیں گے۔‘‘

“ ٹھیک ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ارمان کو گلے سے لگا لیا۔