کشف محمّد، آغا خان اسکول، کراچی
انتہاپسندی کی سادہ سی تعریف کی جائے، تو اپنے عقائد،نظریات اور خیالات دیگر تمام عقائد پر مقدّم رکھنا اور انہی کے درست ہونے پر مصررہنا انتہا پسندی کہلاتی ہے۔جب اپنے لیڈر، گروہ، قبیلے، قوم یا کسی خاص نظریے سے محبّت شدّت اختیار کر جائے، اس کی کوئی برائی، برائی نظر نہ آئے، اختلافِ رائے کا احترام ختم ہو جائے، تو ایسے جذبات انتہاپسندی کا رُوپ دھار لیتے ہیں۔ دَراصل، یہ ایک منفی جذبہ ہے، جو نظریے کی شدّت سے وجود میں آتا ہے۔ ویسے عام طور پر انتہا پسندی سے مراد مذہبی انتہا پسندی ہی لیا جاتا ہے، تاہم یہ صرف مذہبی نہیں کئی طرح کی ہوتی ہے۔ سیکولرازم فالو کرنے والے افراد میں بھی یہ رحجان پایا جاتا ہے۔
اسلامو فوبیا اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اسی طرح بھارت کا سرکاری نظام سیکولر ہے، مگر وہاں کے عوام نے پچھلے کئی برسوں سے حکومت، ایک مذہبی جنونی طبقے کو سونپ رکھی ہے۔ حالاں کہ وہاں کی شرحِ خواندگی ہم سے کہیں بہتر ہے، مگر عوام کو مذہبی خطرات سے ڈرا کر ان سے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح انتہا پسندی لسانی ، قومی اور معاشرتی خیالات و عقائد میں بھی پائی جاتی ہے۔
انتہا پسند سوچ بے لچک ہوتی ہے، جو کوئی دوسرا خیال قبول کرنے سے انکاری نظر آتی ہے۔ اس میں مخالف سوچ، نظریہ، خیال اور عقیدہ برداشت کرنے کی قوّت ہی نہیں ہوتی۔ ایسی سوچ کے حامل افراد کسی بھی صورت بس اپنے ہی تصوّرات منوانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شدّت پسند معاشرے جلد ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ قومی انتہا پسندی کی واضح مثال ہٹلر کا اقدام تھا، جس نے اپنی قوم کو برتر ثابت کرنے کے جنون میں پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں جھونک دیا۔
اسی طرح معاشی نظام کی انتہا پسندی کی واضح مثال روس کا کمیونسٹ انقلاب ہے، جس نے اپنے ہی لاکھوں ہم وطنوں کو نظام کی تبدیلی کے عمل کے لیے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اب جہاں تک انتہا پسندی کے اسباب کا تعلق ہے، تو یہ مختلف اقوام میں مختلف وجوہ کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہے۔مثال کے طور پر جیسے پاکستان میں اس کی وجہ غربت، جہالت اور سیاسی نظریات ہیں،جن کی وجہ سے لوگ جنونیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح بھارت، جہاں کی شرحِ تعلیم پاکستان سے کہیں بہتر ہے، وہاں انتہا پسندی کی بنیادی وجوہ میں مذہبی عُنصرشامل ہے، جو عوام میں شدّت پسندی کی ترویج کا ذمّے دار ہے۔ بھارت کے اس رویّے نے پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ویسے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وہ مغرب، جو آج امن کا عَلم بردار بنا پھرتا ہے، دَرحقیقت آمریت، شدّت پسندی وہیں کی پیداوار ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھوک و افلاس، یک ساں مواقع نہ ملنا، تعلیم کی کمی اور معاشرتی عدم توازن کی وجہ ہی سے مذہبی، لسانی یا سیاسی انتہا پسندی اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہے۔
عام طور پر ترقّی پذیر یا غریب ممالک میں مذہبی جنونیت پھیلانا سب سے آسان ہوتا ہے کہ سیاسی و مذہبی رہنما اپنے مفادات کے لیے مَن مانی تشریحات پیش کرتے ہیں، جو ان کے پیروکار مان بھی لیتے ہیں۔ یاد رکھیں، اگر شدّت پسند سوچ، خیالات اور رویّوں کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے، تو معاشرے مذہبی جنونیت کی وجہ سے بتدریج پستی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی مرتبہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عوام کے جذبات کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
انتہاپسندی کسی بھی شکل میں ہو، مُلک و قوم کی ترقّی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کا کام کرتی ہے اور معاشرتی ترقّی کا عمل سُست کر دیتی ہے۔ تعمیری سرگرمیاں کم اور تخریب کاری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یوں، معاشی ترقّی سُست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ یاد رکھیں! جب تک نئی سوچ اور روشن خیالی معاشروں میں متعارف نہیں کروائی جائے گی، تب تک انتہا پسندی سے چُھٹکارا حاصل کرنا بےحد مشکل ہے۔