سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر کے بلامقابلہ وزیراعظم منتخب ہوگئے یہ اعزاز قبل ازیں سردار محمد عبدالقیوم خان کو حاصل تھاوہ 1991میں بلا مقابلہ آزاد کشمیروزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اس طرح تنویر الیاس آزاد کشمیر کے 14ویں وزیراعظم بن گےآزاد کشمیر میں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے جب تخت اسلام آباد میں اونچ نیچ ہوتی ہے آزاد کشمیر میں اس کے فوری اثرات مرتبہ ہوتے ہیں 1970میں جب آزاد کشمیر کے لوگوں کو ووٹ کاحق ملا اس کے بعد پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے آزاد کشمیر میں اپنی شاخیں قائم کیں ۔ پیپلز پارٹی نے سب سے پہلے اپنی سیاسی جماعت قائم کی اور 1975 میں آزاد کشمیر میں دوتہائی اکثریت سے حکومت بنالی۔
اس کے بعد یہ تسلسل 2021 تک جاری رہا آزاد کشمیر میں پاکستان کی حکمران جماعت کو آزاد کشمیر میں حکمرانی قائم کرنے کیلئے مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 نشستوں ہمیشہ سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے لوگوں سے حق حکمرانی چھین لیا بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ آزاد کشمیر پاکستان کی حکمران جماعت کی شدید مداخلت کے باوجود آزاد کشمیر میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود مہاجرین کی 12نشستوں پر حکومت قاہم کرلی 2021سے پہلے آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کیلئے 21 نشستیں درکار ہوا کرتی تھیں 30حلقوں میں کوئی جماعت 10 نشستیں حاصل کرلیتےتو 12 مہاجرین کی ملا کر نآسانی حکومت بنا لیتے تھے۔
موجودہ حکومت کی بھی آزاد کشمیر میں 33 میں سے 17 نشستیں حاصل کی تھیں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 500 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرنے اور وفاقی حکومت کی مداخلت کے باوجود 17نشستیں حاصل کر لیں۔ آزاد کشمیر کی 52سالہ پارلیمانی پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی یقینی تھی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ہی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی 9 اپریل کو پاکستان میں تبدیلی ہوئی آزاد کشمیر میں اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تیاری ہی کررہی تھیں۔
تحریک انصاف کے 25 اراکین نے اپنے ہی وزیر اعظم کے خلاف 12اپریل کو تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی رائے شماری کیلئے 15 اپریل کو اجلاس بلایا گیا 14 اپریل کی رات وزیراعظم سردار قیوم نیازی نے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد دوسرے دن ووٹنگ کا عمل نہ ہوسکا آزاد کشمیر کے ایکٹ 1974 کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے وقت متبادل کے طور پر جس کانام دیا جاتا ہے وہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد خود بخود وزیر اعظم بن جاتا ہے اسکی کامیابی کا نوٹیفیکشن جاری ہوجاتا ہے اگر جس وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہو وہ مستعفی ہو جائے اس کے بعد صدر ریاست نیا اجلاس بلاکر نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں جو خفیہ ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے لیکن ا سپیکر اسمبلی آزاد کشمیر نے 15 اپریل کو ہی وزیر اعظم کے انتخاب کے شیڈول کا اعلان کردیا۔
جس پر اپوزیشن نے شور کیا لیکن اسپیکر نے نہ سنی جس پر اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی ہائی کورٹ نے اسپیکر اسمبلی کو وزیر اعظم کے انتخاب سے 18 اپریل تک روک دیا تحریک انصاف ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی دو دن بحث کے بعد سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ دیا 18 اپریل کو جب اجلاس بلانے کیلئے وزیر اعظم قیوم نیازی جو مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم کے منتخب ہونے تک بطور وزیر اعظم ہیں انہوں نے سمری پر دستخط کرنے میں تاخیر کی تحریک انصاف کے دو اراکین اسمبلی نے سردار قیوم نیازی کو رضا مند کیا اجلاس شروع ہونے کے بعد شیڈول جاری کیا گیا۔
متحدہ اپوزیشن نے بہانہ بناکر بائیکاٹ کا اعلان کردیا کہ وزیر اعظم کے امیدوار سردار تنویر الیاس پر الزام لگایا کہ انہوں نے اربوں روپے سے اراکین اسمبلی کو خرید لیا اس طرح سردار تنویر الیاس بلا مقابلہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے منتخب وزیراعظم کا تعلق ضلع پونچھ سے ہے قانون ساز اسمبلی کے رکن ضلع باغ سے منتخب ہوئے اسلام آباد کےایک بڑے تاجر ہیں اربوں روپوں کا بزنس ہے اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے مشیر تھے آزاد کشمیر اسمبلی ممبر منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں شامل تھے لیکن عمران خان نے چھ امیدواروں سے انٹرویو لینے کے بعد سردار قیوم نیازی کو وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔
4اگست 2021 کو سردار قیوم نیازی وزیراعظم منتخب ہوئے راقم نے گزشتہ سال 19اگست کو آرٹیکل میں اس کا ذکربھی کیا تھا چھ ماہ کے بعد سردار تنویر الیاس کو آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بنایا جائے گا قیوم نیازی کو اس لیے وزیر اعظم بنایا تھا کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری پر عمران خان اعتماد نہیں کرتے تھے وقتی طور پر بیرسٹر کو ٹالنے کیلئے ایسا کرنا پڑا ورنہ عمران خان شروع دن سے سردار تنویر الیاس کو وزیر اعظم آزاد کشمیر بنانا چاہتے تھے سردار تنویر الیاس کو بھی قیوم نیازی کی طرح شروع دن سے مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ ایک بڑی اپوزیشن انتظار میں بیٹھی ہے پاکستان میں سیاسی استحکام کے بعد سردار تنویر الیاس کی جانب رخ کرے گی۔
نو منتخب وزیر اعظم کو اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے ان میں کچھ اراکین اسمبلی ایسے ہیں جنہیں عدم اعتماد کا وسیع تجربہ ہے تو وزیر اعظم کو روزانہ کی بنیاد پر بلیک میلنگ کریں گے اس اسمبلی میں اکثریت ایسے اراکین کی ہے جو عدم اعتماد کے بغیر وقت گزار نہیں سکتے نئے وزیر اعظم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار لیکن ہر آنے والا دن انکی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔