• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مومنہ حنیف 

  اخلاق کسی بھی قوم کی بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔اچھے اور عمدہ اوصاف وہ کردار ہیں جس کی قوت پر قوموں کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر بگاڑ کا شکار ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔ جس معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا۔

اخلاق حسنہ کے اعتبار سے پوری نسل انسانی میں ممتاز ترین شخصیت آقا دوجہاں ﷺ کی ہے۔ جن کے عمدہ اخلاق نے دنیا کے ہر طبقہ ، ہر مہذب کو گرویدہ بنادیا۔ عمدہ اخلاق کے ساتھ ساتھ ان کے اندر تحمل و صبر کی وہ اعلٰی صفات تھیں جو کسی میں نہ تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محض قانون کے متعارف کروانے سے کبھی کسی قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک اس کے ساتھ خوف خدا اور اخلاقی تربیت نہ ہو۔ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار انحطاط کا شکار ہیں۔

تعلیمی اداروں میں نصابی کتب اور معلومات کے حصول پر تو تاکید کی جاتی ہے، مگر طلبہ کی اخلاقی آبیاری پر توجہ مرکوز نہیں ہوتی۔ اخلاقی اقدار کے متعلق تعلیم تو دی جاتی ہے، مگر اسے شخصیت کا جزو بنانے کے لئے کسی قسم کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔

معاشرے میں اخلاقی اقدار کے فقدان کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر طبقہ نے اپنے ذمہ واجب الادا اخلاقی فرائض کو کماحقہ پورا نہیں کیا۔ مادیت کے غلبہ کے باعث انسان کا اخلاقیات و روحانیت سے تعلق ختم ہوکر رہ گیا ہے، اگر ہم اسلام کی روشن تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیاء و علماء کی مجالس میں اخلاقی اقدار کو انسانی شخصیت کا حصہ بنانے کے لئے باقاعدہ تربیت کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ اسلام کی تعلیمات و اسلاف کی تاریخ نوجوان نسل کو اچھے اخلاق وکردار کا خوگر بنا سکتی ہے۔ یہ قربانی و ایثار کادرس دیتی ہے اور اسلاف کے عمدہ واقعات سے بھری پڑی ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔

بزرگوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت، علماء کی قدر ومنزلت، محتاجوں اور بے کسوں کی دادرسی ،ہم عمروں کے ساتھ محبت والفت اور جذبۂ ایثار وہمدردی کا سبق دیتی ہے۔ اخلاق سے ہی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔ اٹھنا، بیٹھنا، بولنا ،چلنا پھرنا، پہننا اوڑھنا ، کھانا پینا اخلاق و تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ رہن سہن، میل ملاپ ایک اچھے انسان ہونے کی غمازی کرتا ہے ۔مقام افسوس ہے ،ہمارے نوجوانوں میں عدم برداشت کارجحان بڑھتا جارہا ہے۔

معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنانا اور پھر انتقام کی آگ جلتےرہنا ، بڑوں کاادب و احترام کیسے کیا جاتا ہے، اس کے تو ہر روز دل دہلا دینے والے واقعات تڑپا دیتے ہیں۔ جب کوئی نو جوان بوڑھے والد کو دھکے دے کر گھر سےنکال دیتا ہے ، سڑکوں پر ماؤں، بہنوں کی عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے ،اساتذہ کو سرعام بےعزتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اخلاقی انحطاط کا یہ عالم، لمحہ ٔ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔

اگر سنجیدگی سے اس معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں اور قرآن و سنت کا دامن تھام لیں، اسوہ ٔحسنہ پر عمل پیرا ہوجائیں اور اسلاف کی شان دار اخلاقی روایات پر چلیں تو ہم اپنی نسل نو کو اخلاقی پستی سے بچاسکتے ہیں۔

اگر آج نوجوانان ملت اپنے اخلاق کو سنوارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو یقینا ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے اور گھر، خاندان، معاشرہ چین وسکون اور امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔

متوجہ ہوں!

 قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی