طیبہ سلیم
بچوں کی زندگیاں والدین کے گردگھومتی ہیں، بچہ ہر معاملے میں ان کا محتاج نظر آتا ہے۔ اپنی زندگی کا ہرمشورہ اور فیصلہ اپنے ماں باپ کی مرضی سے کرتا ہے۔ جب اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے تو ماں باپ اسے تعلیم دلوانے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔جیسے ہی وہ سمجھ دار ہونے لگتا ہے والدین اس پر زور دینا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ، انجینئر وغیرہ بن کر ان کا نام روشن کرے۔ والدین کی اکثریت چاہتی ہے کہ ان کا بچہ روایتی کیریئر اپنائے،مگر اس کے لیے بچے کو مجبور کرنا یا اپنی مرضی مسلط کرنا مناسب نہیں۔
بیش تر والدین لکیرکے فقیر ہیں وہ بچے کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں جو قطعاََ مناسب نہیں کسی بھی نوجوان کے لیے پورا تعلیمی کیریئر، کے جی ون سے گریجویشن یا ماسٹرز تک، انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن یہ دورانیہ طلباء کے لیے اس وقت انتہائی مشکل ہوجاتا ہے جب اُن کے والدین ان پر اپنی پسند اور مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ والدین کی خواہش پر ڈاکٹر بننے والا بچہ اپنے کیرئیر میں اتنا ہی کامیاب ثابت ہو۔ جس کا نتیجہ کبھی کبھی انتہائی تکلیف دہ بھی ہوجاتا ہے اسی تناظر میں ایک واقعہ نذرِ قارئین ہے۔
اگر اس دفعہ تمھارے نمبر میڈیکل میں اچھے نہیں آئےتو، تمھاری پاکٹ منی بند کر دی جائے گی ۔‘‘اظفر صاحب نے اپنے بیٹے شہیر کو دھمکی دی۔جوکہ پیپرز کی تیاری میں مگن تھا ۔
والدین بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن بیٹے کو میڈیکل کی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ جیسے تیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا صرف اپنے والدین کی خواہش پوری کرنے کے لیے وہ دن رات ایک کر کے پڑھائی کر رہا تھا ناکامی اور والدین کی خفگی کا خیال اسے مذید محنت پر اکسا رہا تھا۔ ایک خوف کی مانند اس نے امتحان کی تیاری کو سر پر سوار کر لیا تھا ۔
اسے اانجینئرنگ کا شعبہ پسند تھا .جب اس نے والدین سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اانجینئرنگ میں داخلہ لینا چاہتا ہے تو باپ نے یہ کہہ کر اسے منع کر دیا کہ یہ بھی کوئی پڑھنے والی چیز ہے،اس کا کوئی اسکوپ نہیں۔ڈاکٹر کی ڈگری کی زیادہ اہمیت ہے ۔اس لئے تم ڈاکٹر بنو گےاور میری خواہش بھی ہے ۔یہ سن کر شہیر نے اپنی دلچسپی کو فراموش کر دیا اور والدین کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ پیپرز ختم ہوگئے تھے لیکن اتنے اچھے نہیں ہوئے تھے کہ کوئی پوزیشن آتی ۔
اتنی محنت کے باوجود اچھا رزلٹ نہیں آیا ۔شہیر نے اپنا رزلٹ والدین کو نہیں بتایا، ان سے چھپا دیاا ۔
ڈانٹ وپھٹکار کا خوف اسے مجرم بنائے ہوئے تھا۔اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں جاکر چھپ جائے ۔اپنے آپ کو دنیا کا نااہل نکما بیٹا سمجھنے لگا تھا۔ والدین سے رزلٹ زیادہ دن نہیں چھپا سکتا تھا ۔سوچ سوچ کر شہیر نے اپنے آپ کو بیمار کر لیا۔ آخرکار اس نے ایسے راستے کا انتخاب کر لیا ، جس کا ماں باپ نے سوچا بی نہ ہوگا، ایک دن میڈیکل اسٹور سے کچھ دواخریدی اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنادیا ۔ صبح والدین نے اپنے بیٹے کو مردہ حالت میں دیکھا تو اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا دوسرے دن اخبار میں سرخی لگی کہ "ایک طالبعلم نےتعلیمی کاکردگی نہ دکھا سکنے پر دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کر لی "
یہصرف ایک واقعہ نہیں ہے ، ایسےکئی واقعات ہو چکے ہیں۔ والدین سوچیں کہ وہ بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے،اسکوپ،اسٹیٹس کے چکروں میں اپنی اولاد کو کھو رہے ہیں۔ والدین بچوں پر اپنی مرضی اور پسند مسلط کرنے کی بجائے ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔ اس ضمن میں بچوں اور والدین کے درمیان گفتگو کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے، تاکہ کوئی درمیانی راستہ نکل سکے اور دونوں ایک دوسرے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ والدین اولاد کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ تنہا نہ کریں بلکہ ان سے مشورہ کریں، اس کے شوق کو مدنظر رکھیں اور اس کی بات کو اہمیت دیں کہ وہ آخر کیا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان مستقبل روشن اور کامیاب ہو۔ انہیں کوئی منزل ملے کوئی سمت مل سکے۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی