• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل کے خطے میں اپنی اپنی حکمرانی قائم کرنے کیلئے خطے کے ممالک چین، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن دیگر ملکوں نے اپنی اپنی جدوجہد شروع کررکھی ہے۔ اس خطے میں کشیدگی بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ چین کی عسکری اور تجارتی پالیسی ہے۔ ایک عرصے سے چین بحیرہ جنوبی چین میں اپنی دفاعی طاقت میں اضافہ کرنے، بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیرہ تعمیر کرنے، خطے میں بحری قوت میں اضافہ کرنے اور تائیوان کو اپنا اٹوٹ اَنگ قرار دینے کی وجہ ہے۔بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے۔ اس کا مجموعی رقبہ چھ کروڑ اڑتیس لاکھ مربع میل ہے جبکہ گہرائی اوسطاً چودہ ہزار فٹ سے زیادہ ہے اس کے مغرب ایشیاء آسٹریلیا اور مشرق میں امریکا ہے۔

بحرالکاہل کی دریافت کا سہرا بھی پرتگالی اور ہسپانوی جہاز رانوں کے سر ہے جو سولہویں صدی میں اس سمندر اور چند جزائر دریافت کئے۔ انہی جہاز رانوں نے اس سمندر کو پرامن سمندر کہا۔ بعدازاں عربوں نے اس کو کاہل کا تعصب دیا اور یہ بحرالکاہل کہلایا۔ اس سمندر کے ساتھ بیالیس ممالک کے ساحل جڑے ہوئے ہیں۔ جن میں چین، آسٹریلیا، جاپان، امریکہ، انڈونیشیا، ملائیشیا، میکسیکو، فلپائن، ویت نام اور دیگر شامل ہیں۔

1948ء سے 1958 تک امریکا نے 67سے زائد جوہر ی تجربات بحرالکاہل میں کئے۔ اس دوران امریکا کے بہت سے جوہری ہتھیار اس سمندر میں گرکر غرق ہوگئے۔ اس کے علاوہ چین، روس نے بھی اس خطے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے بحرالکاہل کے خطے پر توجہ کم کر دی اس کی توجہ مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کی طرف مبذول ہوگی۔ ایسے میں چین نے رفتہ رفتہ بحرالکاہل میں اپنا اثر بڑھانا شروع کردیا۔ خاص طور پر گزرے عشرے ڈیڑھ عشرے میں چین نے جنوبی بحیرہ چین تا بحیرہ جاپان اور بحر ہند تک اپنا عسکری اور تجارتی اثر بڑھانا شروع کیا۔ اس کا سب سے پہلے سابق امریکی صدر باراک اوباما ایڈمنسٹریشن نے نوٹس لیا، پھر سابق امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بحرالکاہل اور بحرہند کے معاملات کا نوٹس لیا کہ چین نے اس خطے میں اپنی دفاعی صلاحیت بہت بڑھالی ہے تب واشنگٹن میں اس حوالے سے سرگرمیاں نظرآئیں۔ 

امریکا نے مشرق وسطیٰ افغانستان سے توجہ ہٹا کر ساری توجہ جنوبی بحیرہ چین اور ملاکااسٹریٹ پر مبذول کردی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ عجلت امریکا کو افغانستان سے نکلنا پڑا تھا۔ امریکا کی خارجہ پالیسی میں بحرالکاہل بحرہند کے خطے اب اہم ہیں۔ واضح رہے کہ بحرالکاہل اور بحرہند کو ملانے والی کھاڑی ملاکا سٹریٹ جو انڈونیشیا اور ملائیشیا کے قریب سے گزرتی ہے دنیا کی تجارت کی اہم گزرگاہ ہے یہاں سے دنیا کی چونتیس فیصد تجارت عمل میں آتی ہے۔ بحرالکاہل میں واقع تمام اہم ممالک سمیت چین کی تجارت کا بھی بڑا دارومدار اس بحری گزرگاہ سے ہے۔

چین نے اس ملاکا سٹریٹ کے قرب و جوار میں اپنی دفاعی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔ ایسے میںمشرق بعید کے ممالک فلپائن، ویت نام ، کمبوڈیا، لائوس اورتھائی لینڈ کو بھی شدید تشویش ہے کہ خطے میں کوئی بڑاتنازعہ نہ کھڑا ہو جائے، کیونکہ یہ تمام ممالک چین کی توسیع پسندانہ اورکسی حد تک جارحانہ پالیسی سے پریشان ہیں، مگر چین گزشتہ پانچ سات برسوں میں خطے میں اپنی سرگرمیاں بڑھاتا جا رہا ہے۔ بیش تر دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ دنیا کا اب سے ہاٹ اسپاٹ جنوبی بحیرہ چین اور بحرالکاہل کا خطہ ہے۔

مزید یہ کہ چین کے بحری لڑاکا جہاز جاپان کے اطراف بھی چکر لگا رہے ہیں ایسے میں جاپان نے بھی اپنی نیوی کو الرٹ کردیا ہے۔ ویسے جاپان میں امریکا کے پچاس ہزار میرینز تعینات ہیں اور امریکی بحری جہاز بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے برطانیہ نے گزشتہ دنوں آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوز دی تھی جس پر چین نے بہت احتجاج کیا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال بھارت اور ویت نام کی نیوی نے بحیرہ جنوبی چین کے قریب علاقے میں بحری مشقوں میں بھی حصہ لیا تھا۔

دو سال قبل امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت نے ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا تھا جس پر چین بہت ناراض ہے۔ تاہم چین نے اس حوالے سے بنگلہ دیش، میانمار، مالدیپ اور بھوٹان سے بھی دفاعی معاہدے کئے ہیں۔ تب بھارت کی نیوی نے ویت نام کے ساتھ مشقیں کی تھیں۔ چین نے حال ہی میں فلپائن کو بھی دھمکی دی تھی کہ وہ چینی علاقے میں مداخلت نہ کرے۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق بحرالکاہل میں تیل قدرتی گیس سمیت دیگر معدنیات کے وافر مقدار میں ذخائر موجود ہیں مگر ان کی تلاش میں خرچ بہت آتا ہے۔ پھر بھی آسٹریلیا، جاپان اور چین یہ کام کر رہے ہیں۔ امریکہ، بحرالکاہل کے ساحلوں سے تیل گیس نکالنے کا کام پہلے ہی شروع کرچکا ہے۔ لیکن جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کے پاس سعودی عرب سے کچھ زائد تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں اور چین گزشتہ دو برسوں سے وینزویلا اور امریکا کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں۔

اب چین امریکا کے اطراف میکسیکو، وینزویلا، جزائر عرب الہند جن کو ویسٹ انڈیز بھی کہا جاتا ہے۔ ان ملکوں سے تجارت اور سرمایہ کاری کے طور پر تعلقات بڑھا رہا ہے۔ امریکی مبصرین کی رائے میں چین کی یہ پالیسی اس لئے خطرناک ہے کہ امریکا کو اس کی سرحدوں کے قریب آکر چیلنج کرنے والی بات ہے۔ ایسے میں امریکا جنوبی بحیرہ چین کی تائیوان کی حمایت ضرور کرے گا۔ اس حوالے سے امریکی صدرجوبائیڈن نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا تائیوان پرچین کے حملے کا جواب دے گا ا ور امریکا اس مسئلے میں تائیوان کے ساتھ کھڑا ہے۔

بحرالکاہل کے خطے میں درحقیقت سب سے نازک مسئلہ تائیوان کا ہے امریکا نے ابتداء سے تائیوان کی حمایت کی ہے۔ امریکا تائیوان کے مختلف معاہدے بھی ہیں۔ تائیوان پر چین اپنا حق جتا رہا ہے۔ بیش تر مبصرین کی رائے یہ ہے کہ تائیوان پرچین اس لئے قبضہ کرنا چاہتا ہے کہ خطے میں اس کی مزید دھاک بیٹھ جائے کوئی آنکھ نہ ملا سکے۔ دوسرے اہم بات یہ ہے کہ آج کی جدید ٹیکنالوجی کا ایک اہم ترین حصہ وہ چیپ ہے جس کو سبھی کنڈیکٹر کہا جاتا ہے جو دنیا کے ٹیکنالوجی کا اہم ترین پارٹ ہے اور اس میں تائیوان بہت آگے ہے۔ 

اس کے بعد امریکا وغیرہ ہیں جبکہ چین چھٹے ساتویں نمبر پر آتا ہے اگر چین تائیوان پر قبضہ کر لیتا ہے تو، کنڈیکٹر چین کے ہاتھ آجائیں گے اور امریکا یورپ کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس لئے ماہرین کہتے ہیں امریکا کو تائیوان کی زیادہ فکر ہے اور چین کو تائیوان کی زیادہ ضرورت ہے۔اس تناظر میں بحرالکاہل یا بحیرہ جنوبی چین اور ملاکا سٹریٹ کا علاقہ زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ دن بدن تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔

اس تمام مسئلہ میں بحرالکاہل کا ایک ملک اور چین کا دست راست شمالی کوریا جس نے جوہری صلاحیت اور جدید میزائل ٹیکنالوجی نہ صرف حاصل کر رکھی بلکہ وہ جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے تجربات بھی کر چکا ہے شمالی کوریا کے صدر کم سن ان نے امریکا کو کئی بار دھمکی دی ہے کہ اس کے میزائل براہ راست امریکا کے شہرواشنگٹن کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس منظم فوج ہے مہلک ہتھیار دور بین براعظمی میزائل ہیں، مگر قوم بھوکی ہے۔ معیشت بدحال ہے۔ مہلک ہتھیاروں کا سحر ہے۔ 

شمالی کوریا پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں مگر بتایا جاتاہے کہ چین نے ہمیشہ اس کی درپردہ مددکی۔ کوریا کے عظیم انقلابی رہنما کم آل سنگ کا یہ پوتا ہے ۔اس کی سوچ انتہا پسندی پر مائل ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کم جنگ ان سے مذاکرات کرنا گویا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کے چھ صدور بھی ناک آئوٹ ہوگئے۔ شمالی کوریا سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے۔

اس تمام تر تناظر میں بحرالکاہل کا خطہ دنیا کا خطرناک ترین خطہ بنتا جا رہاہے۔ ایک طرف چین اور دوسری طرف شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو اور اس مسئلہ پرنظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو تشویش ہے کہ بحرالکاہل میں امریکا کے جوہری ہتھیار کم ہیں اگر ان میں ایک بھی لپٹ گیا تو پھراس خطے کا اور اس خطے میں واقع ممالک اور جزائر کا کیا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ بحرالکاہل میں درجن سے زائد جزائر آباد ہیں جن پر ایک محتاط اندازے کے مطابق دو کروڑ افراد آباد ہیں۔

دوسرا بڑا خطرہ اس خطے میں سب کے لیے باعث تشویش ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کے علاقے میں چین کے لڑاکا ہوائی جہاز پرندوں کی طرح اُڑتے ہیں اس کے جواب میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے لڑاکا طیارے بھی تائیوان کے اطراف پرواز کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی طیارہ کسی دوسرے ملک کے طیارہ سے ٹکرا جائےیا گرجائے تب کیا ہوگا۔ یہ بڑا ہولناک سوال ہے اس وقت بحیرہ جنوبی چین اور بحرالکاہل کے جنوب مغرب میں جوکشیدہ صورت حال ہے ایسے میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پھر خطے کے ممالک کی خطے میں اپنی اپنی دسترس کی دوڑ الگ، بلاشبہ بحرالکاہل ملاکا سٹریٹ بحیرہ جنوبی چین کا علاقہ مخدوش ترین خطہ ہے۔اس تشویشناک اور خطرناک صورتحال میں خطے کے ممالک کا فکر مند ہونا اور اپنی اپنی سلامتی کو یقینی بنایا سب پر لازم ہو جاتا ہے۔

اس لئے جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، ویت نام و دیگر اپنے اپنے طور پر اپنے خطے میں بالادستی استحکام اور آزادی کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں۔

بالخصوص یورپ میں روس کے یوکرین پر ہولناک حملے اور جنگ کے بعد دیگرممالک بھی تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ روس نے یوکرین میں جس طرح جارحانہ عمل جاری رکھا یہ پوری دنیا کے لئے باعث تشویش ہے۔ اسی طرح چین بھی اگر تائیوان کے ساتھ یہی سلوک کرے، جس کے وہ بار بار اشارہ دے چکا ہے تو خطے میں صورت انتہائی مخدوش ہوسکتی ہے۔ فرض کریں واقعی چین تائیوان پر قبضہ کرلیتا ہے تو اس کے جواب میں امریکا مداخلت کرتا ہے تو غور کریں جنوبی بحیرہ چین کا خطہ کیا بن جائے گا۔ 

ہرچند کہ اس خطے اور اسی کے اطراف چین کا پلہ بھاری ہے یہاں چین کی بحری طاقت، بری قوت اور ہوائی طاقت پوری طرح موجود ہے اور چاق چوبند ہے، جبکہ امریکا کو دور سے آنا ہوگا۔ لازمی طور پرایسے میں امریکا اپنے مغربی ساحلوں کی طرف جواب دے گا۔ پھرشمالی کوریا سمیت دیگر ممالک کا کیا رویہ اور پالیسی ہوگی؟ اس طرح کے سوالات اس خطے کے ممالک میں بھی گردش کر رہے ہیں اس لئے ہر ملک اپنی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانے کی جدوجہد شروع کر چکا ہے۔