فضل الرحمٰن جسکانی
وہ ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا۔تین سال تک اسے بولنا تک نہیں آتا تھا۔ جب پہلی مرتبہ اسکول گیا تو اسے نا اہلی کے سبب خارج کر دیا گیا۔ بیس سال تک یہ عام بندہ تھا، پھر اس نے دن دگنی رات چگنی محنت شروع کی۔بالآخر چھبیس سال کی عمر میں اس نے سائنس کے موضوع پر اپنی کتاب متعارف کرائی۔ اس کے بعد گاہے بگاہے یہ اپنے دور کے عظیم سائنسدانوں کی صف میں شامل ہو گیا۔1933 میں اس نے ہٹلر کے جرمنی کو خیر باد کہہ دیا۔ جس کے وجہ سے ہٹلر نے کہا کہ جو اسے قتل کرے گا اسے حکومت بیس ہزار مارک دے گی۔ لیکن اس کی علمی قابلیت و لیاقت کے سبب کسی نے مقررہ انعام وصول کرنے کی تگ و دو نہ کی۔
یہ بیسویں صدی کا عظیم سائنسدان البرٹ آئن سٹائن تھا، جس نے جہد مسلسل کی۔ وقت اور جوانی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کی جانب گامزن رہا۔ آخر کار اپنا مقصود حاصل کر کے ہی دم لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی کامیابی کے لیے بنیادی کردار محنت کا ہوتا ہے۔ اور بڑی کامیابی کے لیے پیدائشی طور پر بڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جتنی بڑی کامیابی ہوتی ہے اس کے پس منظر میں اتنی ہی محنت کار فرما ہوتی ہے۔ جو لوگ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں وہی زیادہ تجربے کار اور خوش نصیب ہوتے ہیں،کیونکہ مشکلات ہی میں انسان کی قوت و صلاحیت اجاگر ہوتی ہےاور اسے منزلِ مقصود تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
محنت کا سب سے اہم وقت نوجوانی ہے۔ لہذا نوجوانی کی قدر کریں اسے ضائع نہ کریں۔ جب یہ عمر اختتام پذیر ہوگی، تب آپ کو احساس ہوگا کہ ہم نے اسے کیسے گنوا دیا اور یہ حسرت رہ جائے گی کہ کاش جوانی لوٹ آئے۔اس لیے بہتر ہوگا کہ کامیاب زندگی گزار کر مثالی شخصیت بن جائیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اکثر لوگ اسی عمر میں سنورتے یا بگڑتے ہیں۔
جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس لیے کامیابی کے کسی بھی امیدوار کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جوانی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزارے۔ نوجوانوں کو میں عقل و جذبات کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر احساس ذمے داری پیدا کریں۔ یاد رکھیں نوجوانوں میں احساس ذمے داری ہی معاشرے کی ترقی میں بنیادی حیثیت ہوتی ہے۔ باکردار اور بہتر تعلیم و تربیت سے آراستہ نوجون ہی قوم و ملت کی ترقی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
آج ہمارا ملک معاشی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل سے دوچار ہے۔اگر نوجوان نسل بہترین تعلیم و تربیت حاصل کر کے وطن عزیز کے لیے خدمت کرے تو ہمارے ملک کا شمار ایک بہترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میںہو سکتا ہے۔ جاپان کو دیکھ لیں یہ 1950 سے 1970 تک معاشی مسائل کے دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ امریکہ اور دیگر ممالک سے مدد لیتا رہا۔ بعد ازاں اس نے اپنی نئی نسل پر محنت شروع کی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگا۔آج یہ جدید ٹیکنالوجی میں اپنی مثال آپ ہے۔ کوئی بھی کامیابی خود بہ خود آ کر آپ کی دہلیز پر دستک نہیں دیتی،جب تک خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل کر حقیقی طور پر جہد مسلسل نہیں کرتے۔
اگر محنت کریں گے تو دنیا سے جانے کے بعد بھی رازی و غزالی اور آئن اسٹائن و جوزف کی طرح آپ کی کامیابی کے گن بھی گائے جائیں گے۔ اگر آپ بھی کامیاب لوگوں کی صف میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو آج ہی سے یہ تہیہ کر لیں کہ منزل متعین کر کے اس کے لیے جہد مسلسل کرنی ہے۔ یعنی جو شخص اعلی مقام اور کامیابی کا خواہاں ہوتا ہے تو وہ صرف دن ہی نہیں راتوں میں بھی اپنا سفر جاری رکھتا ہے، تاکہ کوئی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ لہٰذا قوم کے نوجوانو! جوانی رائیگاں نہ جانے دیں زیادہ سے زیادہ محنت اور اچھے کاموں کی عادت اپنانے کی کوشش کریں۔
اگر آج محنت ومشقت سے جی چراکر فضولیات اور برائیوں میں وقت گزار کر ہمت وحوصلہ گنوا بیٹھے، تو کل پچھتاوا ہوگا، لیکن اس وقت پچھتانے اور افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ وقت کی لگام کب کسی کے ہاتھ آئی ہے اور وقت کی اس گاڑی کو آج تک کس نے کہا کہ ذرا آہستہ چل! پس آج وقت کی قدر کیجیے اور کل اس سے فائدہ اٹھائیے، وگرنہ پھر گیا وقت یاد تو بہت آئے گا مگر ہاتھ نہ آئے گا۔