• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلچر، سسٹم ،یا معاشرہ کسی رونما ہونے والے واقعہ یا تحریک بہت بڑی وجہ ہوتی ہیں۔ جب کوئی سانحہ ہو تا ہے تو لوگ سخت تنقید کرتے ہیں ۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں پے درپے تین بچیوں کے اغوا، پھر ان کی شادی کی خبریں، جس کے بعد ایک طوفان بپا ہوگیا۔ معصوم بچیوں کے احساسات کی پرواکیے بغیر لوگ چرکے پہ چرکہ لگاتے چلے گئے کسی نے یہ نہیں سوچاکہ بطور ماں باپ کون سی کوتاہیاں ان سے سرزد ہوئیں کہ جوان لڑکیاں اپنے گھر میں ہوتے ہوئے بھی ان کے ساتھ نہیں تھیں۔ 

بظاہر ایک ہی چھت تلے رہ کر بھی وہ ان سے کوسوں دوری پر آخر کیوں؟ ایسا ہوا خاندانی نظام کے خاتمے کا۔ کہاں ہیں۔ دادی ، پھوپھیاں، جن کے ساتھ بچیاں سوتی تھیں اور کہانیاں سنتی تھیں ۔ ماں سے ڈرتیں تو دادی اور پھوپھی ان کی رازداں ہوتی تھیں ۔ ماں سے بھی پہلے وہی بتاتی تھیں کہ اچھا کیا ہے برا کیا ہے ۔ کس سے ملنا ہے کس سے نہیں ملنا ۔ سر پہ دوپٹہ کب رکھنا شروع کرنا ہے ۔ کس عمر میں سینہ ڈھانپنا ہے ۔ 

اسکول جانے کے لیے محلے کے تانگے اور رکشے لگائے جاتے ۔ محلے داری کی بھی روایات تھیں کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی تھیں ۔ زرا سی دیر ہوجاتی تو ماں سے پہلے دادی بھاگی پھرتیں کہ بچی کا پتہ کرو دیر کیسے ہوگئی اور اب شادی سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ گھر میں کون کون ہے ۔ دادی، دادا کو چھوڑیں بیٹی والوں کو گھر میں ساس سسر بھی گوارا نہیں ۔ آج تو ٹین ایج بچی کا بھی الگ کمرہ ہے ۔ ہاتھ میں چوبیس گھنٹے واٹس ایپ اور انٹرنیٹ پیکیج کے ساتھ فون ۔ 

پرائیویسی کے نام پر مادر پدر آزادی کے ساتھ ساری ساری رات کون جانے بچیاں سوتی ہیں یا موبائل پر ہوتی ہیں ۔ پتہ نہیں ماں باپ اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے کہ ان کی کتنی توجہ ہے بچوں پر ۔ بچے سارا دن ساری رات کیا کرتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ نہیں ۔ ماں کو اپنے موبائل سے فرصت ہوگی تو بیٹی پر توجہ دے گی ۔ اکثر گھروں میں معاشرے کی برائیاں گنوائی جاتی ہیں۔ معاشرے میں آپ خود کتنے حصہ دار ہیں یہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے احساسات کو سمجھیں ان کی عمر کے ادوار میں ان کے ساتھ وقت گزاریں۔

نیٹ ،موبائل، لیپ ٹاپ جیسی چیزوں کا گھنٹوں استعمال اور ان پر چیک بھی ضروری ہے۔ اگر کسی گھر کی نابالغ یا بالغ بچی غلط قدم اٹھا رہی ہے تو سزا والدین کو ملنی چاہیے نہ کہ بچی کو ۔ ہر شخص ۔ ہر ماں اور ہر باپ اکیلا بیٹھ کر ضرور سوچے کہ کہاں غلط ہے ۔ کیا غلط ہے اور اگر آپ اصل بات سمجھ گئے تو انشااللہ بچیاں کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے بچ جائیں گی ۔ بچوں کے غلط رویوں کے ذمہ دار عموماََ بڑے ہی تو ہوتے ہیں۔ 

 والدین اپنا احتساب خود کریں کہ آخر غلطی کہاں ہوئی ہے۔ جب سمجھ آجائے تو اس کو سدھاریںاو رجانیں کہ بچوں کو کیسے پالنا ہے، کیسے تربیت دینی ہے۔ صرف ضروریاتِ زندگی پوری کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ آپ کا وقت بھی اُن کے لیے ضروری ہے۔ آپ اُن کے لیے رول ماڈل بنیں، تاکہ جب وہ غلط قدم اُٹھانے لگیں تو آپ کی تربیت اور محبت ان کو ایسا کرنے سے روک دے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

نوجوانوں کے حوالے سےمنعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی