• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد عمار

ہم اکثر سنتے ہیں فلاں بڑا بدتمیز ہے اور باغی ہو گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باغی آخر کون ہے اور یہ کیسے بنتا ہے؟ اگر ہم اس کے لفظی معنی و مفہوم کو سمجھیں تو باغی کے معنی ہیں سرکش، منحرف یا نا فرمانی کرنے والا۔ یہ خلل ڈالنے یا تباہ کرنے کا مترادف ہے۔ بغاوت کا تصور، تبدیلی یا نقصان سے متعلق ہے، خاص طور پر اخلاقی معنوں میں۔ باغی پن زندگی کے کسی بھی شعبے میں پایا جا سکتا ہے۔بغاوت ہر اس جگہ جنم لیتی ہے جہاں پر مخصوص سوچ اور نظریات کا پرچار ہوتا ہے، وہاں باغی سر اٹھاتا ہے۔ 

اس کا کسی خاص عمر یا صنف سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے، جب آپ کے احساسات کی قدر نہیں ہو گی، جب کوئی آپ کی بات کو سمجھے سنے بغیر فیصلہ سنا دے گا تو پھر بغاوت ہی امڈ آئے گی۔ یہ فطری عمل ہے لیکن اس میں شدت بہت ہی خطرناک عوامل کو جنم دیتی ہے۔ آج کل یہ عناصر زیادہ تر نوجوان نسل میں پائے جا رہے ہیں۔

اپنے غصے اور ضد کا اظہار کر کے اپنے جذبات اور احساسات کی نشاندہی کر رہے ہیں جو کہ نہایت ہی افسوس ناک عمل ہے۔ اس پر ستم یہ کے ان کو باغی کے لقب سے بھی نوازا جا رہا ہے جو ان کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچانے کاسبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرتی اقدار سے بغاوت کرنے لگے ہیں، سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے حالات کیوں پیش آرہے ہیں؟ اس کے پسِ پشت کون کون سے عوامل کارفرما ہیں؟

پہلی بات تویہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل کو لگتا ہے کہ، ان کو کوئی سمجھتا نہیں، ان کی باتوں کو سمجھنے کے بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کا موازنہ دُوسروں سے کیا جاتا ہےجو رائے ان کے متعلق مسلط کی جاتی ہے وہ اس سے اختلاف کرتے ہیں تو ان کو بدتہذیب، بدتمیز قرار دے دیا جاتا ہے۔ایسے میں اُن کے اندر غصے کے جذبات سر اُبھارنے لگتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ والدین کو زندگی کے تجربات و مشاہدات ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ بچوں کی خوشی اور سکون کی خاطر ان کو مارجن دے دینا چاہیے نہ کہ ان پر زبردستی اپنی سوچ کو مسلط کردیا۔

بہتر تو یہی ہے کہ دونوں فریقین آپس میں اعتدال کا معاملہ اختیار کریں، کچھ ان کی سنیں، کچھ اپنی منوائیں والا کلیہ کا درمیانی راستہ اپنائیں وگرنہ تباہی اور بے سکونی ہی سب کے مقدر میں آئے گی۔ دوسری طرف وہ والدین بھی ہیں جو فکر معاش میں اس قدر مصروف ہیں کہ اولاد کو وقت ہی نہیں دے پاتے، پھر گھر سے بھاگنا، ، رشتوں سے بدگمانی، یہ اور اس جیسے دوسرے کئی عوامل نوجوانوں کو بغاوت پراُکساتےہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں دو قسم کے نوجوان موجود ہیں ،ایک وہ جو امیر ہیں،اپنی موج مستی میں مست، کوئی روکے ٹوکنے والا نہیں۔

دُوسرا طبقہ متوسط اور غریب نوجوانوں کا ہے جو محنت سے پڑھتے ہیں اور میانہ روی اختیار کرتے ہیں لیکن بہت محنت کے بعد بھی ان کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو ان کے اندر باغیانہ رویّہ سر اُبھارنے لگتا ہے ، پھر وہ احساسِ محرومی کے جال میں پھنس کر یا تو خود کشی کر لیتے ہیں یا نشہ کرنےلگتے ہیں یا جرائم کی دنیا میں قدم رکھ کر اور اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن بھی نسل نو میں بہت ہے، جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور یہ اس حد تک مہلک ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نوجوان نسل کے غم و غصہ کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

اس کے لیے چند امور نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے توپیار محبت سے آپس کے معاملات کو بخوبی حل کیا جائے، ایک دوسرے کی بات کو سنیں اور اہمیت دیں تو ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ معاشرتی طور پر ایسے پروگرام بنائیں جس میں شامل ہو کر نوجوان اپنے مسائل کو اجاگر کر سکیں، ایسے مواقع فراہم کرنا ہوں گے جہاں وہ اپنے ہنر اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکیں۔ نوجوانوں کی دادرسی بھی ان میں پھوٹتی بغاوت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

آخر میں میری تمام والدین ہر صورت اولاد کو وقت دیں،ان کے مسائل سُنیں، سمجھیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔ صرف مادی ضروریات پورا کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ روحانی ضروریات کو بھی پورا کرنا ان کی ذمے داری ہے۔دوسرے نوجوانوں سے ان کا موازنہ نہیں کریں، ان کوخود اعتمادبنائیں۔ اولاد کے لیے ایک رول ماڈل بنیں۔ انسانی زندگی اتنی ارزاں نہیں ہے کہ وہ ہر وقت تکلیف اور جذبات کی آگ میں جل جل کر خود کو بھسم کر لے۔ ذرا سوچیے! ایسا نہ ہو کہ کہیں بہت دیر ہو جائے اور آپ خود اس کے قصوروار ٹھہرائیں۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

نوجوانوں کے حوالے سےمنعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی