ان دنوں ایک قصہ زبان زد عام ہے ہر طرف دعا زہرا کے اغوا کی داستان سنائی دیتی ہے پہلی بار جب ہم نے اس کے بارے میں پڑھا تو دل کو دھچکا لگا کہ اگر کسی کی جوان بیٹی گھر سے غائب ہو جائے تو والدین کے دل پہ کیا گزرتی ہے۔ پھر کچھ دن گزرنے کے بعد یہ اطلاع ملی کہ وہ لڑکی اغوا نہیں ہوئی بلکہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھی اور لاہور جا کر نکاح کرلیا ہے۔
یہ خبر بھی بہت تکلیف دہ تھی کہ اس کے والدین اور باقی تمام گھر والے جو اس کے لئے بری طرح بے چین تھے جن کے آنسو نہ تھمتے تھے ان پر کیا گزری ہوگی؟ پھر ان والدین کی رسوائی ! خدا کی پناہ وہ کیسے دنیا کا سامنا کریں گے؟ مگر ہماری نوجوان نسل یہ تمام باتیں نہیں سوچتی کیونکہ اب تو سوسائٹی کا رنگ ہی بدل گیا ہے اب بچوں میں نہ ڈر ہے نہ خوف اور نہ والدین کا ادب لحاظ اور نہ ہی عزت اور بےعزتی کا احساس۔
اللہ کسی پر ایسا برا وقت نہ لائے اور ہم سب کے بچوں کو نئے زمانے کی ان برائیوں سے محفوظ رکھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات اچانک رونما نہیں ہوتے۔ شاعر نے خوب کہا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہ کھچڑی تو نہ جانے کب سے پک رہی ہوگی لیکن جب اس کا ڈراپ سین ہوا تو سب طرف ہا ہا کار مچ گئی۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان ایک غیر محسوس خلیج قائم ہوچکی ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے، اس میں سب سے بڑا کردار والدین کا ہے کہ، وہ آخر کیوں بچوں کو اپنے ساتھ جوڑکر نہیں رکھتے ان کی ہر نقل و حرکت سے کس طرح غافل ہو جاتے ہیں۔
اگر بچوں پر بھرپور توجہ دی جائے اور ان کی تربیت کو اولین ذمہ داری سمجھا جائے تو بچے کس طرح بہک سکتے ہیں بچوں کو اس خراب ماحول کے اثرات سے بچانا ہے تو والدین کو اپنے بچوں پر پہلے سے زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ اسکول کی عمر تک تو خاص طور سے والدین بچوں سے ہر اچھی، بری بات شیئر کریں تاکہ جھجک کا عنصر حائل نہ ہو۔ وہ کسی غلط سمت دیکھنے کی کوشش نہ کریں ۔لازمی بات ہے جب والدین بچوں کو ہر چیز کی اچھائی و برائی، کھل کر بتائیں گے تو بچوں کو وہ بات بہت بہتر طور پر سمجھ آجائے گی۔
دوسرے یہ کہ بچوں میں موبائل کا بےجا استعمال بے راہ روی کی سب سے بڑی وجہ ہے اب ظاہر ہے بچوں کو موبائل کے استعمال سے بے بہرہ تو نہیں رکھ سکتے ،مگر اس کے منفی اور مثبت پہلو سے ان کو یقینا آگاہ کر سکتے ہیں۔والدین کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے دوست کیسے ہیں ان کی دلچسپیاں اور مصروفیات کیا ہیں۔ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس پر پوری احتیاط کے ساتھ توجہ دینی چاہیے یہ والدین کا فرض ہے۔
کاش والدین اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں تو دعا زہرا اور ایسی ہی دیگر بچے بچیاں برباد ہونے سے بچ جائیں یاد رکھیں ذرا سی بے احتیاطی بچوں کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ سب کے بچوں کی حفاظت کرے۔ آمین
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سےمنعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی