فلم ایک پاور فُل میڈیم ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں اس پر حکومتی سطح پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس کے باوجود بھی پاکستان فلم انڈسٹری اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھتی رہی۔ اگر اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی تو، یہ دُنیا بھر میں وطن عزیز کا نام روشن کرتی، یہی وجہ ہے کہ جب بھی اسے موقع ملتا ہے یہ اپنی طاقت کی بدولت اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ 2022ء کی عیدالفطر کے موقع پر پاکستانی فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے معیاری فلمیں پیش کیں۔
ان فلموں کو بے حد پسند کیا گیا۔ ان کے تمام شوز ہائوس فل گئے، مگر تین چار دن کے بعد سینما مالکان نے ان فلموں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک برتا اور پاکستانی فلموں کے شوز کی تعداد آدھی کرکے ایک غیرملکی فلم کے شوز کو دے دی گئی۔ اس پرتمام پاکستانی فلم سازوں اور فن کاروں میں مایوسی پھیل گئی، انہوں نے سنیما مالکان کے خلاف سخت احتجاج بھی کیا اور حکومت پاکستانی مطالبہ بھی کیا کہ وہ عید کے چند دنوں بعد غیر ملکی فلموں کو سنیما میں لگانے کی اجازت دے، عید کی ہماری ساری فلمیں شان دار بزنس کررہی ہے، اس کے باوجود بھی ان کے شوز کم کردیے گئے۔ کب تک ہمارے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔
فی الحال عید فلمی دنگل میں شامل فلموں اور ان کے ہیروز،ہیروئنز اور ہنر مندوں کی کارکردگی پر بات کرتے ہیں ۔ امسال جیو فلمز جے بی فلمز اور پروڈیوسر حسن ضیاء کی فلم ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘ نے فلم بینوں کی بھرپور توجہ حاصل کرتے ہوئے سپرہٹ قرار پائی۔ اگرچہ اس فلم کے کھلاڑی بڑے میدان میں پہلی بار اترے تھے۔ ان میں فلم کے ہیرو زاہد احمد، سائیڈ ہیرو سید جبران اور ڈائریکٹر ثاقب خان نے پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر انٹری دی تھی۔ فلم کی با کمال اور خُوب صورت ہیروئن صبا قمر نے شان دار کردار نگاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عید فیسٹیول اپنے نام کر لیا اور وہ پُوری فلم کا بوجھ اپنے کاندھوں پراٹھا کر چلیں اور ثابت کیا کہ وہ فلموں کی صف ِ اول کی فن کارہ ہیں۔ صبا قمر نے ’’زوبی‘‘ سے ’’زبیدہ‘‘ کے کردار میں فلم بینوں کے دل جیت لیے۔ انہوں نے شاعرہ کے روپ میں عمدہ کردار نگاری کی۔
فلم کی ہیروئن اور ہیرو،صبا قمر کوکہیں تو بے جا نہ ہوگا، البتہ زاہد احمد اور سید جبران نے اپنے اپنے کرداروں میں عمدہ کام پیش کیا ۔ فلم کے ہیرو زاہد احمد سے پولیس انسپکٹر کے کردار میں چُلبل پانڈے جیسی پرفارمینس کی توجہ کی جا رہی تھی، مگروہ اس طرح کی دبنگ پرفارمینس دینے میں کام یاب نہیں ہوئے۔ البتہ سید جبران نے اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کیا۔ وہ ’’زوبی‘‘ کے سچے عاشق کے روپ میں اچھے لگے۔ ’’گھبرانا نہیں ہے‘‘کا ایک اور اہم کردار نیئر اعجاز کا تھا، جنہوں نے ’’بھائی میاں‘‘کے روپ میں اعلیٰ معیاری کی پرفارمینس دی۔
انہوں نے اپنے ایک ایک سین میں فلم بینوں کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ معروف فن کار سلیم معراج نے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرا اور لاجواب پرفارمینس کا مظاہرہ کیا۔ ماضی کی فلموں کے ہیرو افضل خان ریمبو سے اس فلم میں بہت توقعات کی جا رہی تھیں، لیکن انہوں نے مایوس کیا۔ فلم کے ڈائریکٹر ثاقب خان نے تمام فن کاروں سے جم کر کام لیا۔ فلم کے شروع ہونے سے اختتام تک کسی بھی لمحے فلم بینوں کی دل چسپی کو کم نہیں ہونے دیا۔ ثاقب خان نے اپنی پہلی ہی فلم میں بتادیا کہ ڈائریکشن کا معیار کیسا ہونا چاہیے۔ فلم کی موسیقی نے بھی دل کش رنگ بکھیرے۔ مختصر یہ کہ پروڈیوسر جمیل بیگ، حسن ضیاء، ثاقب خان اورجیو فلمز کی مشترکہ پیش کش نے عید کا میلہ جیت لیا اور سینما گھروں کی رونقیں بحال کردیں۔ اگر ایسی ہی فلمیں بنتی رہیں، تو فلم انڈسٹری جلد اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے گی۔
عیدالفطر کے فلم فیسٹیول میں شامل دوسری فلم ’’دَم مستم‘‘ نے بھی باکس آفس پر خُوب رنگ جمایا۔ فلم کی کہانی بہت عمدہ تھی۔، جو فلم کی ہیروئن امر خان نے خود لکھی تھی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اسے پاکستان کے ساتھ امریکا، برطانیہ، دبئی، عرب امارات اور دوسرے ممالک میں بھی ریلیز کیا گیا تھا۔ فلم کے ہیرو عمران اشرف کو سلور اسکرین پر پسند کیا گیا۔ فلم کی ہیروئن امر خان نے اس فلم کی کام یابی کے لیے شبانہ روز محنت کی۔ فلم کی موسیقی پر خصوصی توجہ دی گئی، جسے سب نے پسند کیا۔ عدنان صدیقی نے بہ طور پروڈیوسر اور اداکار اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیا۔ فلم کے ڈی او پی سلمان رزاق نے ثابت کیا کہ وہ نمبرون ہیں۔ فلم کے بارے میں عدنان صدیقی کا کہنا تھا کہ میں نے اس فلم میں عمر بھر کی جمع پونجی لگا دی ہے۔ فلم بنانا میرا جنون تھا۔ مجھے ٹیم اچھی ملی، تو کام یابی حاصل ہوئی۔ ہم آئندہ بھی فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
شوکیس فلمز، جیو فلمز اور ہدایت کار وجاہت رئوف کی فلم’’پردے میں رہنے دو‘‘نے بھی فلم بینوں کی بھر پور توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہی۔ ہدایت کار وجاہت رئوف کی یہ خُوبی ہے کہ وہ کم بجٹ میں عمدہ فلم بنانے کا ہُنرجانتے ہیں۔ ان کی فلم کے فلاپ ہونے کے چانس بہت کم رہ جاتے ہیں۔ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی فلموں میں ایک بات بہت اچھی دیکھنے میں آئی کہ تمام کے موضوع ایک دوسرے سے الگ اور دل چسپ تھے۔ ’’پردے میں رہنے دو‘‘کا پرموشن شان دار انداز میں کیا گیا۔ فلم کا موضوع گھرگھر کی کہانی تھا۔ شادی شدہ جوڑے کو اولاد نہیں ہوتی، تو معاشرے اس پرنوکیلے جملوں اور طنز کی برسات کردیتا ہے۔
ایسے جوڑے کا جینا مشکل کردیا جاتا ہے۔ وہ روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں۔ فلم کے رائٹر محسن علی نے عمدہ اسکرپٹ لکھا اور ہدایت کار وجاہت رئوف نے اس سلگتے ہوئے حساس موضوع کو شگفتہ انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے اس فلم میں ایک پیغام دیا ہے کہ اولاد کی نعمت قسمت سے ملتی ہے۔ ڈِمپل گرل ہانیہ عامر اور علی رحمان نے شادی شدہ جوڑے کے روپ میں شان دار کردار نگاری کی، ہانیہ عامر اور علی رحمان نے ڈراموں کے علاوہ دوچار فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ سینئر اداکار جاوید شیخ نے علی رحمان کے والد کے کردار میں جان دار پرفارمینس کا مظاہرہ کیا۔ حساس موضوع کے باوجود ڈائریکٹر وجاہت رئوف نے فلم بینوں کی فلم میں دل چسپی کم نہیں ہونے دی۔ اس طرح کی بامقصد فلموں کو ہر سطح پر سپورٹ کیا جانا چاہیے۔
اب ہم ذکر کریں گے، نوجوان تجربے کار اداکار اور ہدایت کار یاسر نواز کی فلم’’چکر‘‘کی۔ اس فلم کی کہانی تجسس، تھرل اور ڈرامے سے بھرپورتھی۔ فلم کی ہیروئن نیلم منیر نے ڈبل رول میں لاجواب اداکاری کی ۔ چاکلیٹی ہیرو احسن خان نے مرکزی کردار میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ احسن خان، عصر حاضر کے سب سے مقبول اور معروف ہیرو ہیں۔ وہ جس فلم میں کام کرتے ہیں۔ اس کے پروموشن میں بھی غیر معمولی دل چسپی لیتے ہیں ۔ فلم ’’چکر‘‘کے بعد آئندہ ماہ ان کی دوسری فلم عائشہ عمر کے ساتھ آرہی ہے، جس کا نام ’’رہبرا‘‘ ہے۔ احسن خان کا فن دھیمی آنچ میں پک کر کندن بن گیا ہے۔ ابتداء میں انہوں نے فلموں میں چھوٹے کردارادا کیے، بعدازاں انہوں نے خود کو ڈراموں اور فلموں کا کام یاب ہیرو ثابت کیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد مرحوم کی طرح وہ فلموں کے
گانے فلمانے میں غیر معمولی دل چسپی لیتے ہیں۔ یاسرنواز نے اس بار ہدایت کاری کے ساتھ بہ طور اداکار بھی خود کو فلم میں شامل رکھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ فلم بنانا ہم سب کا جنون ہے۔ ہم نقصان کے باوجود بھی مزید فلمیں بنانے کا ارادہ کرلیتے ہیں ۔ فلموں کے برعکس ڈراموں سے نام اور پیسہ کمانا آسان ہے، مگر ہم پھر بھی فلم بناتے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر ہمارے ساتھ تعاون نہ رہا تو ہم فلمز بنانا چھوڑ دیں گے۔‘‘
عیدالفطر میں سینئر ہدایت کار سیدنور کی فلم ’’تیرے باجرے کی راکھی‘‘ بھی ریلیز کی گئی۔ جس میں نئی فن کاروں کو موقع دیا گیا۔ اس فلم نے پنجاب کے چند سینما گھروں میں جگہ بنائی۔ مگر کراچی سرکٹ میں اسے کوئی جگہ نہیں ملی۔ 2022ء کی عیدالفطر کی پانچوں فلموں کے معیار کے اعتبار سے دیکھیں، تو ان میں سے ماسوائے سید نور کی فلم ’’تیرے باجرے دی راکھی ‘‘کے، سب کی سب معیاری تھیں۔
سینما مالکان چند روز بعد غیرملکی فلم ریلیز نہ کرتے تو شاید ان فلموں کے بزنس میں مزید اضافہ ہوتا۔ ہمیں اپنی فلموں کو پروموٹ کرنا ہوگا۔ فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں امجد رشید نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی فلموں کو سپورٹ کریں۔ سینما مالکان کو پابندکیا جائے کہ وہ سب سے پہلے پاکستانی فلموں کو شوز دیں۔