آپ پوری ذمہ داری سے سوچیں کہ کہاں غلط ہیں اور کیا اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اگر ہم یہ جان لیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جائیں ۔ ہٹ دھرم انسان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اسے اپنے علاوہ سب کے عیب نظر آتے ہیں وہ اپنی غلطیوں کا بہترین وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کے لیے بہترین جج ہوتا ہے۔
جب کسی معاشرے میں افراد کا یہ رویہ عمومی ہو وہ معاشرہ اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت اچھے سے نہیں کر سکتا۔ ایک مرتبہ ایک کلاس کے بارے سر تبسم کو شکایت کی گئی کہ یہ کلاس بہت زیادہ بحث کرتی ہے اور بحث بھی سیاسی۔ جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا سوائے اس کے کہ آپس میں رنجش بڑھ جاتی ہے طنز طعنے گالم گلوچ عام مزاج بن گیا ہے۔ ادھوری بات سن کر پورا جواب دینا یہ اخلاقی گراوٹ ہے۔ سراس کلاس میں تشریف لے گئے اور کلاس میں سے ہر بچے سے پوچھا آپ کیا بننا چاہتے ہیں تو ہر ایک نے اپنے خواب اپنی منزل کے بارے بتایا۔
انہوں نے سوال کیا آپ ایک بینک آفیسر ہیں یا آرمی آفیسر ہیں یا ایک ٹیچر یا جج کے منصب پر فائز ہیں اور کوئی آ کر آپ کو کہتا ہے جاو ٔ مسٹر واش روم دھو دو اور سنو ٹائلٹ صاف کرنا تو کیا آپ اس کی بات مانو گے ۔ سب نے کہا نہیں بلکہ غصہ بھی ہوں گے۔ آپ کیوں نہیں بات مانیں گے وجہ ۔ بس ایک چھوٹا سا کام تو کرنا ہے صفائی نصف ایمان ہے ۔’’ سر آپ کی بات ٹھیک ہے مگر ہم کیوں ایسا کریں ہماری وہ ذمہ داری ہی نہیں اس کام کے لیے سویپر رکھے گئے ہیں یہ ان کا کام ہے اور ہم نے اتنا پڑھا ہے محنت کی ہے ایک مقام حاصل کیا ہے کیا اسی کام کے لیے حاصل کیا ہے۔‘‘
ایک طالب علم نے جذباتی انداز میں جواب دیا ۔ اس کے جواب پر سر مسکرائ اور کہا میرے عزیز طلبا آپ سب کا یہی مسئلہ ہے جو جس کام کے لیے بنا ہے وہ اپنے حصے کا کام سر انجام نہیں دے رہا۔ آپ اگر چپڑاسی یا سویپر نہیں تو آپ مشیر یا وزیر بھی نہیں۔ آپ ایم این اے ۔ ایم پی اے بھی نہیں ۔ آپ ایک طالب علم ہے۔ آپ کا کام پڑھنا ہے اس ملک کو اچھے طالب علم کی ضرورت بھی ہے۔ آپ اپنے علوم و فنون میں مہارت حاصل کریں گے تو کل جب آپ کو ملک کی اہم ذمہ داری دی جائےگی، تب آپ وہاں اپنی پوری توجہ لگانا ۔ نالائق آدمی کو اگر ذمہ داری دی جائے تو ملک کا برا حال ہوجائے گا۔ ہم میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے اور جانتا ہے کہ فلاں ایسا ہے اسے ایسا ہونا چاہیے، مگر خود کے بارے میں نہیں جانتا۔
آپ اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کیجیے۔ اس بات کا شعور رکھیں کہ آپ کے ذمہ کیا ہے ۔جب ہر فرد اس کے مطابق کام کرے گا تو اپنی غلطی پر کسی دوسروں کو اندھا کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔ آج ہم اپنی عدالت، تھانہ کچہری، اسپتال، اسکول، تجارت دکان کسی کارکردگی سے مطمئن نہیں صرف وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے حصے کا کام چھوڑ کر دوسرے کو سکھانا چاہتا ہے کہ اسے کیسے کام کرنا چاہیے۔ تو عزیز طلبا آپ نے جان لیا کہ گھر ہو یا معاشرہ ، محلہ ہو یا شہر،صوبہ ہو یا ملک اس میں مسائل کی بڑی وجہ لفظ ذمہ داری ہے۔ بس اپنا مزاج بدلیے اور وہ کیجیئے جو آپ کے ذمہ ہے۔ چوک، چوہراے، ہوٹل ، کلاس روم، سٹاف روم کہیں بھی کوئی بحث آپ کے کام نہیں آئے گی ۔
(ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم* کی کتاب ’’کامیاب زندگی کے راز‘‘ سے انتخاب)