• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لطیف النساء

نوجوان ملک کا مستقبل اور عظیم سرمایہ، ماں باپ کی آرزو، معاشرے کی رونق اور سب سے زیادہ فعال طبقہ ہے "۔ ماں باپ انہیں معاشرے کا ایک حسین اور کا ر آمد فرد بنانا چاہتے ہیں۔ اس فعال طبقے کو صرف بچپن میں ہی نہیں بلکہ نوجوانی میں سب سے زیادہ توجہ اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج نوجوانوں کے چہروں پر تھکاوٹ اور مایوسی نظر آتی ہے۔ نوجوانی کی جو تازگی ان کے چہروں پرنظر آنی چاہیے وہ نہ جانے کہاں غائب ہوگئی ہے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، مگر پھر بھی بجھے بجھے رہتے ہیں۔

ان کے لئے کھیل کی جگہیں نہیں، اسٹیڈی سرکل نہیں، دین سے دوری نے بھی ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم اگر ریاضی میں کمزور ہوتے تھے تو چند دن اپنے اڑوس پڑوس کی باجی کے پاس جا کر کچھ سمجھ لیتے اور وہ بھی سمجھادیتی تھیں بلا معاوضہ۔ بڑے بہن بھائی چھوٹوں کی اتنی مدد کردیتے تھے کہ انہیں کہیں جانے کی ضرورت نہ تھی جبکہ آج کل کے نوجوان شاید چند ہی ایسا کرتے ہوں باقی تو خود ٹیوشنیں ڈھونڈتے ہیں۔

مہنگائی، بیروزگاری، غیر متوقع حالات بجلی، پانی گیس کی تنگی مزید آڑے آتی ہے اور انہیں مزید مشکلات میں گھیر لیتی ہے۔ نوجوانی کی عمر بڑی حساس ہوتی ہے۔ یہ بچے ذرا ذرا سی بات کو اپنی تضحیک سمجھتے ہیں، اگر والدین، اور اساتذہ ایسے موقع پر صحیح راہنمائی نہ کریں تو یہ طبقہ بہت جلد منحرف ہوجاتا ہے تعلیم کو خیرباد کہہ کر دیگر فالتو کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ میں روز اپنے گھر کے پیچھے واقع باغ میں تقریباً روزانہ ایسے مناظر دیکھتی ہوں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے کہ یہ ہیں آنے والے کل کے معمار۔

صبح نو دس بجے یا شام مغرب کے وقت باغ میں لڑکوں کے ٹولے آتے ہیں جو مختلف گھروں کی نمائندگی کرتے ہیں کچھ بہت ہی مہذب اور شائستہ بھی ہوتے ہیں، اچھے کپڑوں اور حلیوں میں ہوتے ہیں مہذب گھرانوں کے لگتے ہیں وہ یا تو اپنے موبائل میں مگن ہوتے یا سگریٹ کے کش لگا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ نوجوان چھپتے چھپاتےچرس بھی پی رہے ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے بعض دفعہ اسکول، کالج کے بھاگے ہوئے لڑکے بھی آتے ہیں جنہیں میں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگادیتی ہوں، مگر سب کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی۔ 

پھر میں سوچتی ہوں یہ نماز کے وقت، دوپہر کے وقت، کالج کے وقت اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کچھ بچوں کے والدین جاب پراور وہ یہاں باغ میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں، اگر ان کو صحیح وقت پر صحیح راہنمائی ملے۔ ان کی دیگر سرگرمیوں سے متعلق بہترین دوستانہ سرپرستی میسر ہو تو یہ طبقہ عظیم سرمایہ ثابت ہو۔ 

دوسری طرف وہ نوجوان ہیں جو اسکول کالج میں پڑھتے ہی نہیں بلکہ چھ سات کلاسز پڑھ کر کسی نہ کسی کام پر لگ جاتے ہیں یا تو والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں، دکان پر یا چھوٹے چھپڑے لگا کر یا دیگر گھروں میں ضروریات کی چیزیں لانے لے جانے میں ہاتھ بٹاتے ہیں لیکن یہ سب فکر مند اداس اپنے مستقبل سے خوفزدہ اور مایوس اور بے زار نظر آتے ہیں کیونکہ نہ کوئی صحیح روزگار ہے، نہ آسودگی، نہ دلچسپی کا کوئی کام ۔ نوجوانوں کو اپنے دین کی سوجھ بوجھ بھی نہیں جو ان کے والدین کی کوتاہی ہےجو اچھے بُرے سے غافل ہیں۔ 

بہترین اساتذہ اور مذہبی اسکالرز کا رول جتنا مؤثر ہونا چاہیے وہ نہیں ہورہا۔ کہنا یہ کہ اگر بچوں کو نوجوانوں کو ماحول اچھا ملے یا پھر عمر کے لحاظ سے ان کی سرگرمیاں ہوں۔ اسپورٹس کمپلیکس ہوں، شارٹ کورسز ہوں، نوکریوں کے مواقع ہوں، حکومتی سرپرستی بھرپور ہو جن سے وہ نہ صرف ہنر مند بن کر نکلیں بلکہ آگے ان کی مطلب کی نوکری کے اعلیٰ مواقع ہوں تا کہ ان کا وقت اورصلاحیت صحیح جگہ پر پر کام آئے۔ تعمیراتی کاموں، ویلڈینگ، فیٹینگ، آئی ٹی اور الیکٹرانک آلات کی ادارے ہوں جو ان کے ساتھ تعاون کریں۔ پیار بھرے ماحول میں سرپرستی کے ساتھ نہ صرف ان کے اعتماد کو بحال رکھیں۔ 

ان کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے متعلقہ محکموں میں متعارف کروائیں۔ دوران تربیت ان کو اتنی رقم ضرور دیں جو ان کی ذاتی ضروریات پوری کر سکیں تا کہ وہ ہر کام احساسِ ذمہ داری سے کریں، اور پرسکون رہیں۔ نوجوانوں کو بھی بہت محنتی اور چوکس ہونے کے ساتھ ساتھ صابر ہونا چاہئے، منٹوں میں خواہشات پوری نہیں ہوجاتیں، قدم بہ قدم سیڑھیاں چڑھنے پر عروج مل ہی جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے حلیوں سے اور اپنے رویوں سے وہ اپنے ملک کے مہذب شہری لگیں اور اپنی زبان، لباس، تہوار پر فخر کریں۔ خوش رہنے اور رکھنے کے گُر سیکھیں۔ محنت ہی میں عظمت ہے اس بات کو گرہ میں باندھ لیں۔

آپ ؐ نے فرمایا ہے محنت کار اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ اپنے وقت کا بہترین استعمال مؤثر طور پر کریں، ایماندار رہیں، فعال رہیں۔ دوسروں کےلئے راہنما اور رول ماڈل بنیں۔ کیا ہوا جو زیادہ محنت کرنی پڑجائے؟ مگر اپنے مشن کو جاری رکھیں۔

دین و دنیا کی کامیابی کے لئے سیکھنے سکھانے، پڑھانے اور پڑھنے کا عمل مستقل بنیادوں پر جاری رکھیں کہ یہی ہماری ریت بھی ہے ضرورت بھی ہے۔ بلاوجہ ٹی وی موبائل اور میڈیا کی فالتو لغو بات میں پڑ کر اپنی زندگی کو قیمتی وقت کو اور اپنے خوبصورت حسین رشتوں کو پامال کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ کام کام اور صرف کام کیا جائے۔ اللہ ہمارے مستقبل کے معماروں کو ایسے مینار بنادے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ خوشنما دنیا میں وہ روشنی کے مینار ہیں۔