یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بدلتے ہوئے طرزِ زندگی میں بوڑھے والدین کے مقام اور اہمیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ جس اولاد کی خاطر وہ دن رات محنت کرتے، مسائل برداشت کرتے ، وہی اولاد کسی قابل ہوجانے کے بعد ان پر توجہ نہیں دیتی، اپنی مصروفیات میں سے ان کے لیے وقت نہیں نکالتی۔ بوڑھے ما ں باپ روز دروازے پر نگاہیں جمائے ان کے منتظر رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں ایک سبق آموز واقعہ قارئین کی نذر ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ کویت میں ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا، تاکہ اپنی شکایت (مقدمہ) قاضی کےسامنے پیش کرے-
قاضی نےپوچھا،’’ آپ کا مقدمہ کس کے خلاف ہے؟‘‘ اس نےکہا، اپنے بیٹے کے خلاف۔ قاضی حیران ہوا اور پوچھا کیا شکایت ہے، بوڑھے نے کہا، میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں، قاضی نے کہا،’’ یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے‘‘۔ بوڑھے نے کہا،’’ قاضی صاحب ! اس کے باوجود کہ میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں‘‘۔
قاضی حیرت میں پڑ گیا اور اس سے اس کے بیٹے کا نام اور پتہ لےکر اسے عدالت میں پیش ہونے کاحکم جاری کیا۔بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی نے اس سے پوچھا ،’’کیا یہ آپ کے والد ہیں؟‘‘ بیٹے نے کہا،’’ جی ہاں یہ میرے والد ہیں-‘‘
قاضی نے کہا، انہوں نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو-‘‘
بیٹے نے حیرت سے کہا، یہ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ وہ خود بہت مالدار ہیں اور انہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے-‘‘ قاضی نے کہا، یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔‘‘
بوڑھے نے کہا،’’ قاضی صاحب!اگر آپ اس کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کاحکم دیں تو میں خوش ہو جاؤں گا بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بلا تاخیر اور بلا واسطہ دیا کرے۔‘‘قاضی نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا یہ آپ کا حق ہے-‘‘
پھر قاضی نےحکم جاری کیا کہ "فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بلا واسطہ دیا کرے گا۔‘‘
کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا ،’’کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائر کیوں کیا تھا،جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا؟‘‘
بوڑھے نے روتے ہوئے کہا، قاضی محترم! میں اپنے اس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس رہا ہوں، اور اس کو اس کے کاموں نے اتنا مصروف کیا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں، جبکہ میں اپنے بیٹے سے شدید محبت کرتا ہوں اور ہر وقت میرے دل میں اس کاخیال رہتا ہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیلیفون پر بھی نہیں، اس مقصد کے لئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی، میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے‘‘
یہ سن کر قاضی بے ساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے لوگ بھی، اور بوڑھے باپ سے کہا، اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے آگاہ کرتے تو میں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا۔ بوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا،*" قاضی صاحب! آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا۔‘‘
باپ کی رہنمائی، شفقت اور محبت کےبغیر ہماری ذات تو ذرۂ بے نشان کی مانند ہوتی ہے۔ باپ کا رشتہ عظیم نعمت خداوندی ہے۔دل غمگین ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ باپ جس نے بچوں کی آسودہ حال زندگی کی خاطر اپنے جسم کا کندن راکھ کیا ہوتا ہے جس کے سیاہ بالوں پر گزرے وقت کی ڈھیروں برف جمی ہوتی ہے۔ وہ ننھے بچے ذرا سا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے لگتے ہیں اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو اپنے بوڑھےباپ کی تمام عمر کی ریاضت کو پل میں بھول جاتے ہیں۔ باپ کی عینک کے پیچھے چھپے آنسوئوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں حالانکہ باپ کی موجودگی تو سورج کی مانند ہوتی ہے سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے، مگر سورج نہ ہو تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔
* کاش بیٹے جان لیں کہ ان کے والدین کی دلوں میں ان کی کتنی محبت ہوتی ہے، اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے۔ اپنے بوڑھے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں۔