• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالقدیر درس

انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ دوسروں کے اعمال ، حرکات وسکنات ، اقوال والفاظ پر گہری نظر رکھتا ہے، اور ہر پل دوسروں پر تنقید کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے، ہماری مجلسی گفتگو کا محور عموماََ یہی ہوتا ہے لیکن سب سے بڑی خوبی تویہ ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے بہرہ ور ہو اور اپنی خامیوں کا دل کی وسعتوں سے سامنا کرے اور ان کو دور کرنے کی کوشش بھی کرے۔ یہ ایک بہت اچھا عمل ہے۔ حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت و دانائی کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے ’’نادانوں سے کہ، جب وہ کوئی نادانی والا عمل کرتے، میں فورا اپنا محاسبہ کرتا ہوں کہ کہیں مجھ میں تو یہ خامی نہیں۔ اگر میرے اندر ہوتی تو میں فورا اسے چھوڑ دیتا۔‘‘

خود احتسابی ایک ایسی خاصیّت ہے جو کسی بھی انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باقی سب لوگوں کے عیوب پہ تنقیدی نظر رکھنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکتا ہے کہ آیا جو خامی سامنے والے انسان میں دکھائی دے رہی ہے، کہیں وہ اس خامی کا شکار تو نہیں۔ اگر کسی کے بُرے لہجے سے تکلیف پہنچ رہی ہے تو کہیں میں کسی اورکےلئے اپنے غلط لہجے کی وجہ سے تکلیف کا باعث تو نہیں بن رہا، اگر کسی اور کی شخصیّت اُس کی بداخلاقی، بد زبانی، کنجوسی، بے حسی یا کسی بھی اور خامی کی بناء پہ مسخ ہوتی محسوس ہو رہی ہے تو اپنے اندر جھانک کے بھی دیکھ لوں کہ کہیں میں خود انہی خامیوں کا مُرقّع تو نہیں۔

خود احتسابی، محاسبہ یا سیلف ٹرائل کی عادت کامیابی کا پہلا زینہ کہلاتی ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یا منفی رجحانات کا پتا لگا سکتے ہیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھ سکتے ہیں۔ اپنے اخلاق و کردار کو سنوار سکتے ہیں۔ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے نقصانات اٹھا کر بڑے اور کٹھن مصائب سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ مستقبل کے آئینے میں اپنی حقیقی اور واضح تصویر دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے ذریعے نوجوان لاپروائی کی عادت سے جان چھڑا سکتے ہیں، کیوں کہ بہت سے معاشرتی، معاشی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی مسائل کی جڑ، لاپروائی ہی ہے لیکن جو نوجوان اپنی اصلاح نہیں کر سکتا اور سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتا، نتیجتاً زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہیں۔ ایسے میں وہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو ٹھہراتا ہے۔ اس کے نزدیک معاشرہ اس کا دشمن اور قسمت اس کے مخالف ہوتی ہے۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اُس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے۔ اسے اس کے بھیانک روپ سے متعارف کراتا ہے اور اس کی سستی و کاہلی، تن آسانی و آرام طلبی اور تغافل و تساہل کو توڑ دیتی ہے۔ اس کے برعکس جو نوجوان اپنے اہداف و مقاصد اور منزل و راہِ عمل متعین کر کے خود احتسابی کرتا ہے، کامیابیاں اس کے قدم چومتیں اور رفعتیں اس کا پتا ڈھونڈتی ہیں۔

ہمارا مذہب اسلام ہمیں خود احتسابی کا درس دیتا ہے۔ کہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں، گاہے بگاہے اپنا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ کہیں ہم اپنے خالق کی مرضی کے خلاف تو کام نہیں کر رہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں فورا توبہ کر کے راہ راست پر آنا چاہیے۔ محاسبہ اور خود احتسابی محض شرعی اعمال میں ہی نہیں دیگر امور میں بھی کرنا چاہیے۔

یعنی اخلاق، کردار، تجارت، کاروبار، معیشت، معاشرت، سماج، سیاست، حکومت، اطاعت، تدبر، تفکر، تقریر، تحریر، تدریس، تحقیق، تنقید، خاندان، والدین، اولاد، حقوق، فرائض، دوستی، دشمنی، تسبیح، تحمید، تعارف، تعلّی، تشفی، حکمت، موعظت، محبت، نفرت، تعلقات، توقعات، تجربات، ملازمت، مشقت، مانوسیت، ممنونیت، مباحثہ، مجادلہ، مناظرہ، مباہلہ، مرض، شفاء، نیکی اور بدی، غرض ہر امر میں محاسبہ نفس ضروری ہے، کیوں کہ یہی ترقی کا ضامن اور اس سے محرومی تنزلی کا باعث بنتی ہے۔

جن معاشروں میں خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے، وہاں لاقانونیت، افراتفری، بدامنی، بے قاعدگی، بے ضابطگی، انارکی اور بدعنوانی پھیل جاتی ہے اور اُسے تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

نوجوانو! زندگی کے ہر موڑ پر، ہر کام میں اپنا احتساب خود کریں۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھیں، یہی سوچ آپ کو آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ خود احتسابی کا سب سے بہترین وقت شب کی تاریکی میں نیند سے کچھ دیر قبل ہےجب نرم گداز بستر میں ہم زندہ لوگ صرف ایک لمحہ کو سوچ لیں کہ اس وقت چھ فٹ نیچے کسی بیاباں میں سخت زمین پہ بے کفن پڑے ہوتے تو؟ سوچیں کہ کیا آ ج تک کے ملنے والے وقت میں ہم نے ا پنے سارے فرائض بہ خیرو خوبی آدا ر دئیے۔ کوئی حق جو ادا کرنے سے رہ گیا اللہ کا، اس کے بندوں کا ، کسی جانور کا ،شائد یہ خود احتسابی کا عمل لمحہ بھر کو آ پ کو سونے نہ دے، مگر یہ ممکن ہے کہ آ ج کی یہ خود احتسابی کل ایک نئی صبح کی نوید بن جائے۔