• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پختونخوا حکومت عالمی اداروں سے 598 ارب کی مقروض

خیبر پختونخوا میں گرمی کی شدت میں اضافے کے باوجود ایک طرف حکومت اور اپوزیشن مسلسل متحرک نظرآتی ہیں اور سیاسی سرگرمیاں زوروں پر ہیں تو دوسری طرف خیبرپختونخوا حکومت نے وفاق پر ترقیاتی فنڈز روکنےکا الزام عائد کرکے وفاق میں پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز بھی کردیاہے، صوبے میں سیاسی سرگرمیوں کا یہ عالم ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایبٹ آباد اور مردان میں جلسے کئے تو (ن) لیگ کی مریم نوازنے صوابی میں عوام کو جمع کیا، اسی طرح جمعرات کو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے اپنے آبائی ضلع سوات میں بڑے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاحی تقاریب سے خطاب کیا مگر ان جلسوں میں کسی نے بھی عوام کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے کوئی پروگرام دیا نہ ہی مستقبل کے کسی قسم کے لائحہ عمل کا اعلان کیا، بلکہ یہ سیاسی سرگرمیاں محض ایک دوسرے پر الزامات تک ہی محدود رہیں جن پر حاضرین سے داد وصول کی گئی۔ 

ان حالات میں ایک بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ ملکی سطح پرآنیوالے انتخابات میں اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے مابین ہوگا۔دونوں جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کررہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے بعض قائدین نے اب قومی اداروں کو بھی ہدف تنقید بنانا شروع کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو ایک ایسے وقت میں ہٹایا جب ملک میں شدید مہنگائی ،بے روزگاری اور لاقانونیت کے باعث عوام تحریک انصاف سے متنفر ہورہے تھے مگر جس انداز سے عمران اور ان کی کابینہ کو گھر بھیجا گیا اس شور میں وہ اقدامات پس منظر میں چلے گئے جسکی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو دھچکا لگا اور مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کا سلسلہ شروع ہوتھا۔

آج پی ٹی آئی کے قائدین اپنے جلسوں میں کارکردگی کا ذکر کرنے کی بجائے مجھے کیوں نکالا اور نام نہاد امریکی سازش کو سہارا لے کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے مگرنہیں یہ موقع پی ڈی ایم نے ہی فراہم کیا کیونکہ اگر یہ لوگ وفاق میں اپنی مدت پوری کرتے تو یقینا آج کے اپوزیشن میں جمع سیاسی جماعتوں کو اسکا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ملتا اور آنے والے عام انتخابات میں صورت حال بھی مختلف ہوتی، لیکن آج پی ٹی آئی کے جلسوں سے انہیں مظلوم بناکر پیش کیا جارہا ہے جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ انہیں دوبارہ لانے کیلئے جان بوجھ کر ان میں نئی روح پھونکی گئ ہے۔جتنے لوگ جلسوں میں شرکت کررہے ہیں کیا الیکشن میں بھی یہی لوگ انکا ساتھ دیں گے؟ 

یہ تو آنیوالے وقت ہی بتائے گا لیکن آثار یہی بتا رہے ہیں کہ انہیں ڈیڑھ سال کی قربانی کے بدلے اگلے مذید پانچ سال کےلئے تیار کیا گیا ہے ، وفاق کے ساتھ محاذآرائی کی راہ پر چلتے ہوئے صوبائی حکومت نے ایک جانب بجٹ کی تیاریاں شروع کی ہیں تو دوسری طرف ساتھ ہی وفاق کی جانب سے فنڈز روکے جانے کا رونا بھی شروع کردیا ہے۔ وفاق پرصوبائی وزیرخزانہ کے الزامات کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایوان بالا میں صوبائی حکومت کے بارے میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کیلئے جاری فنڈز میں اربوں کے خرد برد کی صدائے بازگشت سامنے آئی ،جس پر سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران نے ایکشن لیتے ہوئے قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کیلئے مختص رقوم میں 44ارب روپے کی مبینہ بے قاعدگیوں کے حوالے وزیر اعظم کو خط لکھا اور اس خطیر رقم کے حوالے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ 

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت سیفران کے چیرمین سینٹر ہلال الرحمان کی صدارت میں ہونیوالے اس اجلاس میں اکاونٹنٹ جنرل کی بریفنگ کے بعد لکھے گئے اس خط میں کہا گیا ہے کہ مالی سال2019سے2021 کے تین سالوں کے دوران قبائلی اضلاع کیلئے دی گئی رقم میں 44ارب روپے کا تضاد پایا گیا یہ رقم قبائلی اضلاع میں خرچ نہیں کی گئی۔ اسکے جواب میں صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں قبائلی اضلاع کیلئے انضمام کے بعد ترقیاتی بجٹ میں تین گُنا اضافہ کیا گیا۔

وفاقی حکومت نے بجلی کے خالص منافع کا ایک روپیہ تک جاری نہیں کیا،تمام پارٹیاں قبائلی اضلاع کو بھول گئیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کا انضمام، وہاں صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ انضمام سے قبل قبائلی اضلاع کا بجٹ بتیس ارب روپے تھا جو کہ انضمام کے بعد 2021-22میں 77 ارب پر جاپہنچا۔قبائلی اضلاع سمیت دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن ارکان بھی ایک عرصے سے ترقیاتی فنڈز نہ ملنے پر سراپا احتجاج کررہے ہیں اپوزیشن کے ارکان نے تو وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے احتجاج بھی کیا تھا جبکہ اسمبلی اجلاس کے دوران کئی ارکان اسمبلی نے صوبائی حکومت کی جانب سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز روکنے پر احتجاج بھی کیا۔

جہاں تک صوبے میں ترقیاتی کاموں کا تعلق ہے تو اسکے وفاق کی بجائے عالمی اداروں سے بھاری سود پر قرضے لئے گئے جس نے صوبے پر قرضوں کے بو جھ میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے،اسی طرح صوبائی اسمبلی کے رواں اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے دور حکومت میں غیرملکی مالیاتی اداروں سے لئے جانے والے غیرم قرضے پر سوال اٹھائے گئے اس دوران بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبائی حکومت عالمی اداروں کی 598 ارب روپے کی مقروض نکلی صوبے میں مختلف ترقیاتی پراجیکٹس کیلئے گزشتہ چار سال میں اربوں روپے کے قرضے لئے ۔ 30 جون 2021 تک قرض 294 ارب روپے جبکہ 235 ارب روپے کے مزید قرضہ کے لئے بات چیت ہوچکی ہے۔ 

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید