اسلام آباد(نمائندہ جنگ/نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے نیب لاہور اور FIA سے افسران کے تبادلے اور تقرریوں پر تشویش کا اظہار اور مقدمات واپس نہ لینے کا حکم دیا اور کہا کہ ہٹانے کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں، متعلقہ افسران اپنے اوپر الزامات کا جواب دیں.
6اپریل کے بعد ای سی ایل سے نکالے گئے تمام نام اور کیسز کا ریکارڈ سیل کرکے پیش کیا جائے.
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے شہباز اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کئے گئے.
ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو کہا نئے وزیراعلی کے کیس میں پیش نہیں ہونا، پراسیکیوشن برانچ اور تفتیش کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے، انصاف کے نظام سے کوئی کھلواڑ نہ کرے.
جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ بتایا جائے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیسز میں تفتیشی افسران کے تقرر و تبادلے کس بنیاد پر کئے گئے؟ ان معاملات میں قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے۔
نمائندہ جنگ کے مطابق عدالت عظمی نے تفتیشی اداروں میں بعض اعلی ٰ حکومتی شخصیات کی مبینہ مداخلت کے خدشے کے پیش نظر ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے حوالے سے لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ہائی پروفائل مقدمات کو واپس لینے، ان کی تفتیش اور استغاثہ پر مامور افسران کے تبادلوں کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا ہے.
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے تفتیشی اداروں میں حکومتی شخصیات کی مداخلت کے مبینہ تاثر کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ای سی ایل سے ہٹانے والے افراد کے ناموں کی فہرست طلب کرلی ہے اور ہدایت کی کہ تاحکم ثانی ہائی پروفائل مقدمات کی تفتیش اور استغاثہ کرنے والے افسران کو تبدیل نہ کیا جائے، عدالت نے نیب اور ایف آئی اے میں موجود ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کرنے کے بعد سیل کرنے کا بھی حکم جاری کیا ہے.
اٹارنی جنرل کی نشاندہی پر عدالت نے وضاحت کی ہے کہ جن مقدمات کا متعلقہ عدالتوں میں ٹرائل جاری ہے ان کا ریکارڈ سیل نہیں کیا جائے گا.
عدالت نے ایف آئی کے کے اسپیشل جج سینٹرل اور احتساب عدالتوں کے ججوں کو تبدیل نہ کرنے اور ہائی پروفائل مقدمات کو واپس نہ لینے کا حکم بھی دیا ہے جبکہ نیب اور ایف آئی اے میں بڑے مقدمات کی تفتیش اور استغاثہ پر مامور ان افسران کی فہرست طلب کرلی ہے جنہیں گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران تبدیل کیا یا ہٹایا گیا ہے.
عدالت نے قرار دیا ہے کہ بتایا جائے کہ کس بنیاد پر کن کن افسران کا تبادلہ کیا گیا اور ان کی جگہ کن افسران کو مقرر کیا گیا ہے.
عدالت نے ای سی ایل سے نکالے گئے افراد کی فہرست طلب کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے کہ ای سی ایل کے متاثرین کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے؟ اور پہلے سے موجود طریقہ کار میں کیا تبدیلی کی گئی ہے؟
عدالت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین نیب اور متعلقہ ڈی جیز سمیت نیب اور ایف آئی اے کے استغاثہ اور تفتیش کے اداروں کے سربراہوں کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں.
عدالت نے صوبوں کے پراسکیوٹر جنرلز، ایڈووکیٹ جنرلز اور وفاقی دارالحکومت کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ مذکورہ افسران اپنے اپنے تحریری بیان جمع کرائیں اور ہائی پروفائل مقدمات پر اثر انداز ہونے کے لئے تفتیش اور استغاثہ پر مامور افسران کو ہٹانے کے بارے میں الزامات کا جواب اور وضاحت دیں.
دوران سماعت چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ آئین نے پاکستان کے عوام کو آرٹیکل چار میں قانون کی حکمرانی،آرٹیکل 10اے میں ڈیو پراسس اور آرٹیکل 25میں امتیازی سلوک نہ کرنے کی ضمانتیں دے رکھی ہیں اور ہم آئین کی عمل داری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں.
آرڈر میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی کا مقصد کرمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت، غیرجانبداری اور ساکھ کو یقینی بنانا ہے، عدالت نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کو کیس میں معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت جمعہ 27مئی تک ملتوی کردی ہے.
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کرمنل جسٹس سسٹم اور ان مقدمات میں مداخلت کے الزامات سامنے آئے ہیں جس میں نامزد ملزمان اس وقت حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز ہیں، ہمیں اس پر تشویش ہے اور ہم اس بارے میں جاننا چاہتے ہیں.
نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چار بڑے مقدمات کا ریکارڈ ہی غائب ہے.
فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر کو تبدیل کردیا گیا ہے، ڈی جی ایف آئی اے اور تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، ڈاکٹر رضوان کو بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر عدالت کو سخت تشویش ہے.
سکندر ذوالقرنین کے بیان کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا ہے، پراسیکیوشن برانچ اور استغاثہ کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے.
اخباری تراشوں کے مطابق ای سی ایل پر 4663افراد موجود تھے کہ ای سی ایل کے قواعد میں تبدیلی سے 3 ہزار افراد کا فائدہ ہوا ہے.
چیف جسٹس کا کہنا تھا ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے.
قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے، یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ملک میں رائج فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لئے ہے، امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی.
چیف جسٹس نے کہا کہ خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہوگیا ہے، ہماری تشویش صرف انصاف کی فراہمی کیلئے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کیلئے نہیں کر رہے، صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو اندراج مقدمہ سے فیصلہ پر ختم ہوتی ہے۔