آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند میں 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے پاس " پاسنگ مارکس " 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئے اورآج 2022 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ ہے " اخلاقیات " اور " آداب " ۔ اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔
اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں۔ یہ سن کر جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔
جاپان میں معاشرتی علوم " پڑھائی" نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے " پبلشرز " بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کر دیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہو جاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو " کوڑھ مغز " اور " کند ذہن " کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔آخر اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے کے۔
ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔ ہم پہلی سے لے کر دسویں تک اپنے بچوں کو " سوشل اسٹڈیز " پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہم نے کتنا " سوشل " ہونا سیکھا ہے؟
اسکول میں سارا وقت سائنس " رٹتے " گزرتا ہےلیکن پورے ملک میں کوئی نیا سائنس دان نظر نہیں آیا کیونکہ بدقسمتی سے سائنس " سیکھنے " کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی " رٹّا" لگواتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام جو ہمارے نسلوں کو لکیر کا فقیر بنا رہا ہے ، جو تحقيقی ، تخليقی ، اور تصدیقی بنیادی اصولوں سے کوسوں دور ہو،ا سے باتیں دکھائی دے رہی ہے۔
ماہرین تعلیم ،وزیرِتعلیم اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس بوسیدہ نظام تعلیم کوختم کریں، بچوں کو "توتا " بنانے کے بجائے " قابل " بنانے کے بارے میں سوچیں اور نوجوان نسل کو عصری تقاضوں کے مطابق اعلیٰ نظریاتی، تربیتی واخلاقی نصابِ تعلیم سے بہرہ مند کریں۔
خلاصہ یہ کہ ایک نظریاتی مملکت کے باشندوں کےلئے نصاب تعلیم بھی نظریاتی اساس کا حامل ہونا لازمی امر ہے۔ عصری ترجیحات، تربیتی واخلاقی نظریات پر مبنی نصاب سازی میں ہی قوم وملت کی کامیابی مضمر ہے لہٰذا یہ نکتہ اولین فرائض سمجھ کر اس پر عمل کرنا چاہیے۔
نظریاتی نصاب کے ساتھ ساتھ اس کے پڑھانے والے بھی نظریات کے موافق وہم خیال ہونے چاہئے، تاکہ وہ اپنی علمی وتدریسی صلاحیتیں ،ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ نسل نو میں منتقل کرسکیں اور انہیں دنیا میں مثالی کردار کا حامل بنا سکیں۔ (منقول)
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی