• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارم لودہی

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں وقت کی کے ساتھ ساتھ مزید جدت آتی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں آئی۔ٹی کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی نت نئی پیداوار نے ہمارے لئے اتنی آسانیاں پیدا کردی ہیں کہ چھوٹے بڑے کام بھی صرف ایک کلک سے بآسانی کرسکتے ہیں تو وہیں ایک جگہ بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ پر پوری دنیا بھی گھوم لیتے ہیں۔ موبائل کی ہی مثال لے لیجئے جب سے موبائل فون کا زمانہ آیا ہے، تب سے اپنوں کو اپنوں سے جہاں ایک فون کال نے دوری کے فاصلے کو مٹا دیا ہے تو وہیں اس کا بے تحاشا منفی استعمال معاشرے میں متعدد سماجی برائیوں کی وجہ بن رہا ہے۔ 

ایسے میں ہماری نوجوان نسل کی درست سمت میں رہنمائی والدین کےلئے بہت بڑا چیلنج بن کر رہ گئی ہے۔ اسمارٹ فون کے آنے سے کتاب اور قلم کا رشتہ صرف نصابی سرگرمیوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے اور یوں ہماری نوجوان نسل کی تمام تر توجہ تعلیم سے کہیں زیادہ موبائل فون کی دنیا تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

پہلے زمانے میں بچے گھر کے بڑے بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارا کرتے تھے، وہ اپنے تجربات سے اپنے علم سے انہیں مستفید کرتے تھے۔ بہت سی مفید معلومات ملا کرتی تھیں لیکن یہ روایات بھی آہستہ آہستہ دم توڑتی جارہی ہیں۔ نوجوان نسل اب زیادہ تر وقت اسمارٹ فون پر انٹرنیٹ کی دنیا سے بہت کچھ سیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی بات سمجھانے کی کوشش کی جائے تو یہ کہہ کر نیٹ سے سب معلوم ہوجائے گا بات ہی رد کر دیتے ہیں سمجھنا تو دور کی بات۔ موبائل فون کے ذریعے ہر وقت آن لائن رہنے کے خواہش مند نوجوانوں کو اکثر ان کے سماجی اور خاندانی رشتوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

اس چھوٹے سے آلے نے ہمارے خیالات، اظہار، معاملات، ذہن،قلب اور سکون سب کو بدل ڈالا ہے،آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے باشعو ر اور سنجیدہ طبقہ نے بھی اپنی تہذیب وتمدن کو فراموش کردیا ہے۔ضرورت کی اس چیز کے غیر ضروری استعمال نے ہماری نسلِ نو کو اخلاقی اور سماجی پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ نوجوان اپنی تعلیم سے زیاد ہ موبائل فونز پر منسلک رہنے کی وجہ سے دل جمعی سے پڑھ نہیں پاتے ۔راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر موبائل فون چیک کرنا اور اپنے اسٹیٹس پر لوگوں کے کمنٹس اورلائیکس کے بارے میں سوچنے والے اکثر انوجوان نفسیاتی مریض ہوتے جارہے ہیں۔

آج کا نوجوان حقیقی دنیا سے دور ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف جو کہ لمحہ فکریہ ہے کہ آج کے والدین اپنے بچوں کو مصروف رکھنے کےلئے اسمارٹ فون دے کر اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوچکے ہیں لیکن ان کا بچہ اسمارٹ فون پر کیا دیکھ رہا ہے، کیا کررہا ہے، ان سب چیزوں کے منفی اثرات ایک جانب جبکہ دوسری جانب یہ کم عمر بچوں کے ذہنوں کو بری طرح سے متاثر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان میں ویڈیو گیمز کے بڑھتے رجحانات نے بچوں کو ان سماجی سرگرمیوں سے دور کردیا ہے جو ان کی ذہنی نشوونما کےلئے اہم ہوا کرتی تھیں۔

بدقسمتی سے ہمارے مملک میں موبائل فون کمپنیاں منافع کمانے کی کوشش میں نو جوان نسل کو تباہ و برباد کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور ریاست کا کردار بھی اس سلسلے میں بہت کمزور ہے۔ موبائل فون کمپنیاں صارفین کے لیے نت نئے پیکیج کا اعلان کرتی ہیں اور یہی ان موبائل کمپنیوں کی چال ہوتی ہے کہ جس سے ان کے نیٹ ورک زیادہ سے زیادہ صارفین استعمال کریں، مگر ان پیکیجز سے ہماری نوجوان نسل پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 

ہر گلی، کوچے اور چوراہوں کے نکڑ پر یہ ہی نیٹ ورک کمپنیاں ’’فری فری‘‘ کی لائوڈ اسپیکر میں گردان لگاتے مفت کنکشن بانٹتی دکھائی دیتی ہیں ،جس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ اس سے انڈارہ لگا لیں کہ ہمارے ہاں ٹیکنالوجی اتنی سستی ہے کہ ہم اس کو جب جہاں چاہیں بے دریغ استعمال کرکے اپنا وقت ضائع کرتے نظر آتے ہیں۔

جی ایس ایم کے جنوری 2022ء میں کئے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق 186.9؍ملین موبائل فون کنکشن پاکستان میں جبکہ امریکا میں 301.65؍ ملین صارفین اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک میں ٹیکنالوجی ہم سے کہیں زیادہ اچھی ہونے کے باوجود وہاں پر ٹیکنالوجی کا ایسے بے دریغ استعمال نہیں ہوتا جیسے ہم کرتے ہیں۔ امریکا میں موبائل فون بطور فیشن نہیں بلکہ ضرورت تصور کیا جاتا ہے۔ 

جب جہاں ضروری ہوا تو بات کرلی لیکن مختصر بات! امریکا میں پبلک مقامات پر بھی لوگ موبائل فون کثرت سے استعمال کرتے نظر نہیں آتے، وہاں تعلیمی اداروں میں بھی موبائل فون کے استعمال پر پابندی ہے لیکن ہمارے ہاں الٹا پیّہ چل رہا ہے۔ جہاں پر موبائل فون استعمال کرنا منع ہو، ہم وہاں اس کا استعمال ضروری سمجھ کر کرتے ہیں چاہے اسپتال میں ہوں یا مسجد کے احاطے میں موبائل فون کی ہر جگہ ٹرن ٹرن سنائی دیتی ہے۔ جہاں گھنٹی بجی، وہیں جھٹ سے ریسیو کرکے گھنٹوں گھنٹوں فضول کی باتیں ہورہی ہیں۔ موبائل فون بھی ایک نہیں بطور فیشن کئی کئی رکھے ہوتے ہیں۔ ہر دوسرے بندے نے ایک سے زائد کنکشن لئے ہوئے ہیں بس ایک دوڑ ہے ، سب آنکھیں بند کر کے دوڑے جا رہے ہیں۔

موبائل سے دور رکھنے کے لیے نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری مشاغل میں مصروف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ نسلِ نو کو تصواراتی دنیا سے حقیقی دنیا میں لانے کی ضرورت ہے۔

موبائل فون کے غلط استعمال اور ان کے نقصانات سے بچنے کے لیے کچھ ایسی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہیں جن کی بناء پراپنی ضرورت کی اس اہم ایجاد کو استعمال تو کریں، مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچایا جاسکے، لہٰذا نوجوان نسل اس تناظر میں آگاہی اور تعلیم دی جائے کہ موبائل فون ایک تفریح کا اعلیٰ نہیں ہے، اس کے ذریعے تعلیم، کاروبار اور علم بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، ہم ٹیکنالوجی سے اپنے آپ کو کاٹ نہیں سکتے ہیں لیکن سماجی تربیت کو فروغ دینا ہوگااور آسانی کے ساتھ ہر خاص و عام تک موبائل کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہوگی۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،

میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی