ہالی وڈ کی کام یاب ایکشن یاد گار فلم ’’دی ٹِرپ‘‘ کی کہانی کو معروف مصنف خورشید نے فلم ساز ایس اے مجید، ایس ایم رفیق کے لیے فلم ’’شِکار‘‘ کے نام سے لکھی، جس کے ہدایت کار ایس اے حافظ تھے۔ فلم ’’شِکار‘‘ میں انہوں نے منظرنامہ، عکس بندی اور بیگ گراؤنڈ میوزک پر بھر پور توجہ دے کر اس فلم کو ایک یاد گار ایکشن کام یاب فلم کے طور پر اسکرین پر پیش کیا۔ یہ یاد گار ایڈونچر ایکشن فلم جمعہ 30اگست 1974 کو کراچی کے راحت اور کوہ نور سنیما کے پردے کی زینت بنی۔ یہ فلم اداکار شاہد کے فنی کیریئر کی ایک یادگار فلم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
جہاں اداکار شاہد نے اپنے فلمی کیریئر میں رومانی، جذباتی کرداروں میں شہرت پائی، وہاں پہلی بار اس فلم میں ایک جنگجو گوریلے کا کردار کر کے اپنے آپ کو دیگر ہیروز کے مقابلے میں خُوب منوایا۔ اس کردار میں خاص طور شاہد کا گیٹ اپ دیکھنے کے قابل تھا۔ ایک وحشی جنگلی طاقت ور شخص کا یہ کردار آج بھی فلم بینوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اس ایکشن یادگار فلم میں اداکارہ ممتاز نے ہیروئن کا کردار ادا کیا، بہ طور سولو ہیروئن ان کی یہ پہلی فلم تھی، ممتاز سے پہلے اس فلم میں اداکارہ کویتا کو بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔
ایک گونگی لڑکی ’’بانو‘‘ کے کردار کو ممتاز نے بڑی عمدگی سے ادا کیا۔ اداکار ادیب جواپنے منفی کرداروں کی وجہ سے ایک یکساں وِلن مانے جاتے تھے، لیکن اس فلم میں ان کا کردار بہت ہی مثبت اور جان دار تھا۔ سلطان نامی ایک بہادر غیرت مند شخص کے کردار میں وہ بے حد پسند کئے گئے، جو اپنے دشمن کے ہاتھوں اپنی بیوی کی عصمت دری اور قتل کا انتقام لینے کے لیے زندہ تھا اور اپنی معصوم بچی، جو دشمن کے پاس قید تھی، اس سے ملنے کے لیے بے چین تھا۔ اداکار مصطفیٰ قریشی نے ایک عیار چوہدری گلبار کے کردار کو بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا تھا، جس نے دولت اور جائیداد کی خاطر اپنے چچازاد بھائی کو قتل کروا دیا تھا۔
سلطان کا بھائی جو گلباز کے چچازاد بھائی کرامت کا باڈی گارڈ تھا، اسے بھی گلباز نے قتل کروا دیا تھا، نہ صرف یہ بلکہ گلباز حسین عورتوں کا بھی شکاری تھا۔ سلطان کی بیوی ریشماں کی عصمت دری کرنے کی کوشش کی، مگر اس عورت نے اپنی عزت بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی، یہ بھیانک منظر سلطان کی معصوم بیٹی بانو نہ دیکھ پائی اور اپنی آواز کھو بیٹھی، گلباز نے اس بچی کو اپنی حویلی میں ملازمہ کے طور پر رکھا، جو اسی حویلی میں جوان ہوتی ہے۔ ٹی وی کے معروف اداکار محمود علی نے چوہدری گلباز کے منشی کا کردار ادا کیا، جو اس کے تمام جرائم کا چشم دید گواہ تھا، جس کا تکیہ کلام ’’یہ بھی کوئی موقع تھا‘‘ بھی خُوب رہا۔
منور سعید نے اداکار محمود علی کے اوباش بیٹے کا کردار کیا، جو چوہدری گلباز کا ایک کارندہ ہوتا ہے۔ اداکارہ زرقا نے گل نامی ایک پہاڑی لڑکی کا کردار کیا تھا۔، جس کا منگیتر، اداکار ننھا پہلوانی کا شوقین تھا، بلبل کا استاد جمیل سجل اسے عورت سے دور رہنے کو کہتا ہے۔ اپنے دور کی خُوب صورت قلوقطرہ کہلائی جانے والی اداکارہ عشرت چوہدری نے بہ طور آئٹم گرل کے مین سپرہٹ گانے پر ؎ کچھ اور پلا مرے ساقیا ؎ پر نہایت دل کش رقص پیش کرکے فلم بینوں کو خُوب محظوظ کیا۔ مزاح کی دُنیا کا ایک نامور اداکار رنگیلا نے اس فلم میں خصوصی کردار کیا تھا، یہ کردار کھوتا سائیں کا تھا۔ ان کی انٹری پر پورا سنیما ہال قہقہوں سے گونج اٹھتا۔ تین خُوب صورت ڈانسرز امروزیہ، عذرا عادل اور کوثر پر فلم کا یہ گانا فلمایا گیا، جس کے بول یہ تھے ؎ جلوے کچھ اس ادا سے دکھا۔‘‘
ہدایت کار ایس اے حافظ نے اس فلم کے لیے موسیقار اے حمید کی خدمات لیں۔ انہوں نے اس شعبے میں بہت اعلیٰ معیار کی کارکردگی پیش کرتے ہوئے ایسے گیت ترتیب دیے، جو اپنے دور میں خاصے مقبول ہوئے، جب کہ فلم کا ایک گیت جسے مالا بیگم نے گایا اور اس کے بول تسلیم فاضلی نے لکھے ؎ دل لےکر مُکر گیا ہائے سجن بے ایمان نکلا، اس فلم کا ایک سدا بہار گیت ثابت ہوا۔ اس گانے کو رقاص حمید چوہدری نے ایک منفرد انداز میں کوریو گراف کیا، یہ ایک بہت مشکل ٹائپ کا رقص تھا، یہ کٹھ پتلی رقص تھا، جو بھارت میں فلم ’’چوری چوری‘‘ میں اداکارہ نرگس اور راج کپور پر فلمایا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ تجربہ پہلی اور اب تک آخری بار اداکارہ ممتاز پر فلماتے ہوئے کیا گیا، جس میں ممتاز بے حد کام یاب رہی۔ نرگس کے بعد یہ رقص کرنے کا اعزاز اب تک ممتاز کو حاصل ہے، جو ایک ریکارڈ ہے۔
فلم کے دیگر گانوں میں اداکار شاہد پر فلمایا ہوا یہ گانا ؎ مر گیا لُٹ گیا میں تباہ ہو گیا ؎ جسے مسعود رانا نے ریکارڈ کروایا تھا، اپنے دور میں بہت پسند کیا گیا، جب کہ گلوکارہ مالا بیگم کاگایا ہوا یہ گیت ؎ توبہ توبہ توبہ اس لڑکے کو کیا ہوگیا ؎ پر اداکارہ ممتاز کا دل کش رقص اور فلم بندی بھی خُوب رہی۔ اس فلم کا ایک اور خُوب صورت گیت جو اداکارہ زرقا پر فلمایا گیا ؎ یہ دن جوانی کے کہیں بیتے نہ ؎ میں اداکار ننھا کے کامیڈی انداز کو بھی فلم بینوں نے بے حد سراہا۔