• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں سابق حکومت کے دو سابق وفاقی وزراء کے اسٹیبلشمنٹ سے ’’درپردہ رابطوں‘‘ کے بارے میں کئی چہ میگوئیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ 

یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں حضرات کو اپنی پارٹی کےسربراہ کی اس معاملے میں آشیر باد حاصل ہے۔ 

وافقانِ حال کا کہنا ہے کہ کے پی کے سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر دفاع تو واشگاف طور پر نجی محفلوں میں اپنے ’’خفیہ رابطوں‘‘ کے حوالے سے کئی باتوں کا انکشاف کرتے رہتے ہیں۔ 

دوسرے سابق وفاقی وزیر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور ان کے خاندان کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کا ایک طویل پس منظر ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ اپنے پارٹی سربراہ اورطاقتور حلقوں کے درمیان کوآرڈی نیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

نگران حکومت کی تشکیل؟

٭وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں نگران حکومت کی تشکیل کے حوالہ سے کئی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں؟ یارلوگوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں مختلف ناموں کے بارے میں افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور معاشی صورتحال سے نمٹنے کے تناظر میں گزشتہ ادوار میں آئی ایم ایف کے مستقل نمائندے کے طور پر وزارتِ خزانہ اور اس کے امور کو چلانے والے سابق وفاقی وزیر کی آمد کوبھی ایک نئے زاویے سے دیکھا جارہا ہے۔ 

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نئی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے سلسلہ میں سنجیدہ کوششیں تو سامنے آ رہی ہیں لیکن حکومت اس معاملہ میں کئی دشواریاں بھی محسوس کر رہی ہے۔ان تمام حالات کا سامنا پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں متفقہ مشاورت سے طے کریں گی اور رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کا مقابلہ بھی کریں گی؟

٭صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ایوان صدر کی طرف سے اختیار کئے جانےوالے طرز عمل کے حوالہ سے کئی کہانیاں سننے میں آ رہی ہیں۔

حمزہ کی سیاسی پختگی

یار لوگوں کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب کے آئینی عہدہ کے معاملہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا مقصدصرف صوبائی حکومت کو نہ چلنے دینے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ 

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف ان نامساعد حالات میں بھی عوام کو ریلیف دینے کے سلسلے میں ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔صوبائی حکومت میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے اتحادی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ جذبات سے کام لینے کی بجائے فہم و فراست سے قدم قدم پر اتحادی دوستوں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ان کے سیاسی ساتھیوں کے علاوہ اعلیٰ بیوروکریٹ بھی ان کی ’’سیاسی پختگی‘‘ کا اعتراف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔