محمد تابش صدیقی
آج کے اس ہما ہمی اور نفسا نفسی کے دور میں اخلاص ڈھونڈے نہیں ملتا۔ کسی کی پریشانی پر دکھ اور افسوس کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا پر چند جملے لکھ دینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں جب کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا داخل ہوتا ہے تو جیسے مایوسی کی چھائی گھٹا یک دم چھٹ جاتی اور پھر سے نئی توانائی کے ساتھ، جینے کی امنگ جاگ اٹھتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ دنوں میرے ساتھ پیش آیا۔
دفتر سے واپسی پر ایک رفیقِ کار نے بس سٹاپ پر اتارا۔ کافی دیر تک جب گھر کی طرف جانے والی گاڑی نہ آئی، تو سڑک کنارے ہی موبائل نکالا اور اوبر (uber) گاڑی بک کروانے لگا۔ ابھی گاڑی کا ماڈل اور نمبر نوٹ کر ہی رہا تھا کہ کسی نے ہاتھ مار کر موبائل چھین لیا۔ ہڑبڑا کر دیکھا تو ایک موٹر سائیکل سوار لڑکا، میرے ہاتھ سے موبائل جھپٹ کر جا چکا تھا۔ مغرب کا وقت اور بائیک کی رفتار تیز ہونے کے سبب بائیک کا نمبر بھی نہیں نوٹ کر سکا۔
اس کے فوراً پیچھے ایک بائیک میرے پاس آکر رکی، اس پر دو نوجوان لڑکے بیٹھے تھے،جو شاید یہ واردات دیکھ چکے تھے۔ میں نے اُن کو اشارہ سے بتایا کہ وہ بائیک والا میرا موبائل چھین کر لے بھاگ گیا ہے، انہوں نے بائیک اس کے پیچھے دوڑا دی ۔ میں اگلے لائحۂ عمل کے بارے میں سوچنے لگا۔ فیصلہ کیا کہ اوبر بک تو ہو ہی چکی ہے، اس کا انتظار کیا جائے۔ سوچ رہا تھا کہ گھر جا کر پہلا کام موبائل بلاک کرنا ہے۔
موبائل چونکہ چھنتے وقت استعمال میں تھا، تو ایک پریشانی یہ بھی تھی کہ چور کو موبائل اَن لاکڈ (unlocked)ہی مل گیا ہے۔کچھ دیر میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے موبائل پر کال کی جائے۔ ڈرائیور سے درخواست کی تو اس نے فوراً موبائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔فون کیا تو ایک لڑکے نے فون اٹھایا اور کہا کہ "بھائی آپ کا فون ہم نے اس سے لے لیا ہے، آپ کہاں پر ہیں؟"
میں نے لوکیشن بتائی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا اور ان دونوں کے لیے دل سے دعا کی۔
کچھ ہی دیر میں دونوں لڑکے موبائل لے کر پہنچ گئے۔ پوچھنے پر بتایا کہ "رش ہونے کے سبب وہ لڑکا بائیک زیادہ دور نہیں لے جا سکا تھا۔ ہم نے قریب پہنچ کر شور مچایا تو گھبراہٹ میں موبائل پھینک کر بھاگ گیا۔ موبائل پر لاک کوڈ کی وجہ سے فون نہیں کر سکتے تھے، تو واپس اسی اسٹاپ پر پہنچ گئے جہاں سے چھینا گیا تھا کہ شاید آپ انتظار میں ہوں۔ اسی اثنا میں آپ کی کال آگئی۔‘‘
یوں دس بارہ منٹ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش سے نکال لیا، ان کو گلے سے لگایا، دعا دی اور کچھ انعام پیش کیا۔ انہوں نے صرف دعا کی درخواست کرتے ہوئے انعام لینے سے انکار کر دیا۔
یوں کسی انجان کی مدد کے لیے بلا خوف و خطر اور کسی ذاتی غرض سے بالاتر ہو کر نکل پڑنا، یقیناً والدین کی اچھی تربیت کی بدولت ہی ممکن ہے۔ لہٰذا ان نوجوانوں کے والدین کے لیے بھی دعا کی۔ اُس وقت جو کیفیت تھی اس میں نہ تو ان نوجوانوں کا نام پوچھنے کا خیال آیا نہ پتہ ،مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا کردار گہرا نقش چھوڑ گیا۔
یہ تحریر میں نے ان نوجوان لڑکوں کا ایک قرض سمجھ کر لکھی ہے، کیونکہ یہی نوجوان اس ملک کے لیے اصل سرمایہ ہیں۔ حالات خراب ضرور ہیں لیکن ابھی اس مملکت خداداد میں اتنے بھی خراب نہیں جتنا واویلا ہے. اللہ ہم سب پہ رحم فرمائے، خاص طور پہ ان بچوں پہ جن کے کردار نے اعتبار بخشا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ میں موجود اچھائی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نہ کہ ہر وقت برائی کا ماتم بپا کر کے رہی سہی اچھائی کی رمق کو بھی معدوم کر دیا جائے۔ غلطی میری بھی تھی کہ آج کل کے حالات میں سڑک پر کھڑے ہوکر اپنا موبائل نکالتا نہ وہ چھینا جاتا۔
قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔ ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی