خالدہ سمیع
آپ نے شاید یہ محاورہ سن رکھا ہو گا کہ دور کے ڈھول سہانے۔ یعنی وہ چیز جو انسان کی دسترس میں نہ ہو ہمیشہ خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کو وطن سے باہر رہنے والوں کی زندگی خوشنما لگتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل میں عمومی طور پر یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان سے باہر چلے جائیں۔ ماضی میں بھی یورپ، مشرق وسطیٰ اور خلیج میں پاکستانی اپنی قسمت چمکاتے رہے ہیں۔ اکثر بے روزگار نوجوان اپنی آنکھوں میں باہر کے سہانے خواب سجا کر قانونی یا پھر غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بیش تر نوجوان یا تو پڑھنے یا پھر روزگار کی تلاش میں جا تے ہیں۔
مستقبل کا خواب دیارِ غیر میں کیوں؟
کچھ نوجوان کو بہتر مستقبل کے لیے ایجنٹوں کو بھاری رقوم ادا کر کے، خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے خوشحال زندگی کی تلاش میں اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان اپنے ملک میں رہ کر محنت کرنے کے بجائے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دیارِ غیر کیوں جانا چاہتا ہے؟ دراصل انہیں اپنی ساری پریشانیوں کا حل یورپ میں نظر آتا ہے، انہیں راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہوتی ہے۔
اب تو مزدور سے لےکر ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر، بینکر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اکثریت ملک چھوڑنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اُن میں تیزی سے پروان چڑھنے والی یہ سوچ لمحہ فکریہ ہے۔ وجہ اس کی واضح ہے کہ ملک میں بے روز گاری اور جائز ذرائع سے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جان و مال کا عدم تحفظ بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ ان کی قابلیت، اہلیت ،ہنر اور ایمانداری کو بے روزگاری کا دیمک کھائے جارہا ہے۔
بہتر سے بہتر مستقبل کی خواہش ہر انسان کی ہوتی ہے لیکن باہر جا کر یہ کن مشکلات میں گرفتار ہوتے ہیں اس کا انہیں اندازہ وہاں جا کر ہی ہوتا ہے۔ ہمارا سماجی ڈھانچا بھی ایسا ہے کہ غریب اور متوسط طبقے میں والدین اپنے بیٹوں پر اپنی خواہشات کا بوجھ ڈال دیتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر دو پیسے کمائے گا، تو مکان بھی بنائے گا، بہنوں کی شادیاں بھی ہوجائیں گی، یوں یہ نوجوان اپنے والدین کی خواہشات کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں کچھ یقیناً کامیاب بھی ہو جاتے ہیں، لیکن بعض اپنے والدین کو زندگی بھر کا دکھ دے جاتے ہیں۔
ترقی کرنے کی خواہش کوئی بری بات نہیں، ملک سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کی روایت بہت پرانی ہے بہت سے نوجوانوں نے برطانیہ و جرمنی کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں نام پیدا کیا لیکن وہ لوگ قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے تھے اور اب بھی جو لوگ قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں وہ بیرونِ ممالک میں کام کر کے زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں خود بھی کامیاب رہتے ہیں اور وطنِ عزیز کے لئے بھی سود مند ہوتے ہیں۔
یہاں مسئلہ تو ان بے آسرا لوگوں کا ہے جن کے پاس وسائل کی کمی ہے نہ اعلیٰ تعلیم اور نہ ہی قانونی طور پہ ملک سے باہر جانے کے لئے خطیر رقم، ایسے نوجوانوں کو حقائق کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے ملک میں وہی کام کرنے سے کتراتے ہیں جو باہر جاکر باآسانی کرلیتے ہیں۔ بہت سے نوجوان اپنا آبائی پیشہ اختیار کرنے سے گھبراتے ہیں اگر ہمارے نوجوان اپنے ملک میں رہ کر اتنی ہی محنت کریں جو باہر جاکر کرتے ہیں تو کامیابی یہاں بھی ان کا مقدر ہوسکتی ہے، ضرورت اس کی بھی ہے کہ حکومت نوجوانوں کے لئے ملازمت کے مواقع مہیا کرے۔ ملک میں ملازمت کا حصول بھی آسان ہو، مشاہرہ بھی معقول ہو تو پھر کوئی بھی اپنے گھر کا آرام چھوڑ کر پردیس جانے کا کیوں سوچے۔
قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔
نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔ ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی