اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کمیشن پاکستان کی جانب سے ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور سینئر ججوں کو نظر نداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کی تقرری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنا ادارے کے مفاد میں نہیں،توقع ہےججز تقرر کے معاملے پر پائی جانے والی تشویش دور کرینگے،ثاقب نثار و گلزاراحمد نےسینئرز کو نظر انداز کرکےجونیئر ججز کی تقرری متعارف کروائی، کیا جسٹس نسیم حسن کا اعتراف بھٹو کی زندگی واپس لا سکتا ہے؟انہوں نے رجسٹرار کے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن ہونے پربھی اعتراض کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس /چیئرمین جوڈیشل کمیشن عمر عطا بندیال کے نام لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ٹھوس وجوہات کی عدم موجودگی میں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور دیگر سنیئر ججوں کو ہی سپریم کورٹ میں مقرر ہونا چاہئے، انہوں نے نو صفحات پر مشتمل خط کی نقول جوڈیشل کمیشن کے دیگر اراکین اور پاکستان کے دو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور گلزار احمد کو بھی ارسال کی ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور سینئر ججز کی سپریم کورٹ میں تقرری کی طویل روایت رہی ہے لیکن ثاقب نثار اور گلزاراحمد نے سینئرز کو نظر انداز کرکے جونیئر جج کی تقرری کی روایت متعارف کروائی ہے ، پاکستان کے عوام نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کو منتخب کرنے کی آئینی ذمہ داری ہمیں سونپی ہے، عدلیہ میں ججوں کے تقرر کی ذمہ داری آئین کے تحت ادا کرنا ہو گی، عوام کو اس سے کم کچھ بھی قابل قبول نہیں ، آئین پاکستان لوگوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب بھی آئین کی خلاف ورزی کی گئی ملک و قوم کو اس کا نقصان ہی ہواہے ، اعلیٰ عدلیہ کے جج آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں، حلف کا اہم تقاضہ ہے کہ آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو اور انہیں روندا نہ جا سکے اسلئے اعلی ٰعدلیہ میں ججوں کی تقرری کرتے وقت یہ دیکھنا انتہائی ضرروی ہے کہ جس جج کو مقرر کیا جارہا ہے وہ غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کرنے اور اسے کالعدم قرار دینے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتا ہو،خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد یقینی بنانا ایک لازم امر ہے، عوامی اعتماد کے بغیر عدالتی فیصلے اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں،خط کے مطابق ثاقب نثار جونیئر جج کو سپریم کورٹ لے آئے اور اس کیلئے یہ جواز دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر جج صاحبان کو سپریم کورٹ آنے میں دلچسپی نہیں تھی لیکن اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں دیا گیا جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہیں آگاہ ہی نہیں کیا گیاتھا جبکہ آئین کے آرٹیکل 206ذیلی آرٹیکل 2کے تحت اگر ہائیکورٹ کا جج سپریم کورٹ آنے سے انکار کردے تو وہ ریٹائرڈ ہو جاتا ہے ، جسٹس گلزار احمد نے میرٹ کا اپنا ذاتی معیار قائم کیا اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو نظر انداز کرکے ایک جونیئر جج کو لایا گیالیکن چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج کے طور پر مقرر کرنے کی سفارش کرکے خود ہی اپنے طے کردہ معیار کی نفی کردی،خط کے مطابق سپریم کورٹ میں ججوں کی تین آسامیاں خالی ہیں، اگر ٹھوس وجوہات موجود نہ ہوں تو ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور سنیئر ججوں کو مقرر کیا جائے، جسٹس نسیم حسن کی ٹی وی پرآکر غلطیوں کا اعتراف دیر آید درست آید تو کہا جا سکتا ہے کیا جسٹس نسیم حسن کا اعتراف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی واپس لا سکتا ہے؟ جسے انکے احکامات پر سزائے موت دیدی گئی تھی، یہ تاثر پیدا ہوجاتا ہے کہ کسے جج بنانا ہے کسے نہیں؟ ایسا بیرونی عوامل کے باعث کیا جاتا ہے، عدلیہ میں تقرریوں کے معاملے میں اس تاثر کو دور کیا جانا چاہئے، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے، فرد واحد کی جانب سے ایک نام دینا، تقرری کیلئے ووٹنگ پر مجبور کرنا، ایک ووٹ سے جج مقرر ہوجانے کا عمل آئین کے مطابق نہیں ہے اس حوالے سے بطور ممبر جوڈیشل کمیشن سابق جج جسٹس مقبول باقر کی رائے کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کیلئے قائم کمیٹی کی آج تک کوئی رائے نہیں آئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں مزید کہا ہے کہ عوام کا یہ تاثر کہ عدلیہ آزاد نہیں ہے، اپنا احترام اور اخلاقی جواز کھو دیتی ہے، آئین ججز تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کا کہتا ہے تاہم جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کے حوالے سے ایسی کوئی پابندی نہیں ہے،جوڈیشل کمیشن اجلاس ان کیمرہ نہیں ہونا چاہئے اور ججز تقرری کیلئے اجلاس سے متعلق عوام کو علم ہونا چاہئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے پہلے اجلاس کا تجربہ بہت اچھا تھا، اجلاس ماضی کے اجلاسوں سے بہتر تھا کہ اختلاف کا بیج بونے کی روایت سے فاصلہ کیا گیا، توقع ہے آئندہ اجلاس میں بھی ججز تقرری کے حوالے سے پائی جانیوالی تشویش کو دور کرینگے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں رجسٹرار سپریم کورٹ جواد پال کے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن ہونے پر بھی اعتراض اٹھایا ہے ۔