عالمی میڈیا میں امریکا اور چین کی کولڈ وار کے موضوع پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں واشنگٹن میں ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا چین سے سرد جنگ نہیں چاہتا۔ یہی بات امریکا کے وزیر خارجہ انتھونی بلینکن نے بھی یورپ کے دورے میں کہی کہ امریکا چین سے سرد جنگ نہیں چاہتا۔ درحقیقت امریکا اور چین کے مابین جو مقابلہ بازی ہو رہی ہے کچھ حلقے اس کو سرد جنگ کا نام دے رہے ہیں جبکہ بعض سیاسی حلقے امریکا اور چین کی آپس کی مسابقت کو سردجنگ تسلیم نہیں کرتے۔
امریکا کے معروف دانشور اور سیاسی تاریخ داں ہال برائڈس نے اپنی حالیہ کتاب میں سردجنگ پر بھی بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے وہ کہتے ہیں پہلی سرد جنگ امریکا اور سابق سوویت یونین کے مابین تیس برس سے زیادہ عرصہ جاری رہی اور دونوں جانب سے مقابلہ سخت رہا۔ بعض حالات میں دونوں سپر طاقتیں جنگ کے قریب تر پہنچ چکی تھیں مثلاً کیوبا میں سوویت یونین کے میزائل نصب کرنے کے مسئلے پر اور مشرق وسطیٰ میں روس اور امریکی اثر کو کم سے کم کرنے پر علاوہ ازیں مشرق بعید میں ویتنام اوراور خطے میں اشتراکی اثر روکنے پر بھی بڑا مسئلہ رہا۔ مگر سوویت یونین خود اپنا بوجھ نہ سنبھال سکا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔
چین ٹیکنالوجی میں امریکا کے مدمقابل آ کر سب سے بڑی قوت بننا چاہتا ہے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں سابق سوویت یونین اور امریکا کے مابین سرد جنگ جاری تھی اس میں امریکا اور یورپی قوتوں کا کردار زیادہ وسیع تھا، مثلاً تعلیمی اداروں، تفریحی اداروں، پرنٹنگ اور پبلی کیشنز وغیرہ۔ مثلاً کوکو کولا، ہالی ووڈ موویز، جینز اورموسیقی وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔ تعلیمی اداروں کے مابین مقابلہ تھا کہ ہر سال کتنے طلبہ پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کس حد تک آگے بڑھ سکتی ہے۔
ماسکو یونیورسٹی اس دور میں سائنسی تحقیق پر بہت کام کرتی رہی۔ اس کے علاوہ امریکا کو سابق سوویت یونین پر یہ سبقت حاصل رہی کہ دُنیا کے ذہین طلبہ، پروفیسر، سائنس داں، ماہرین ملازمتوں، تعلیم، بہتر زندگی کے حصول کے لئے امریکا جانے کو ترجیح دیتے تھے ایک معنی میں برین ڈرین ہوتا رہا۔ اس سے امریکا کو تیارشدہ ماہرین کی کھیپ ملتی رہی۔ امریکا میں زندگی پُرکش تھی جبکہ سوویت یونین ایک بند معاشرہ تھا۔ ا س کے باقی دُنیا کے بیچ آئرن کرٹین کی اصطلاح مشہور تھی۔ ظاہر ہے بند معاشرے تاریخ میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔
عوام الناس کو نظریہ یا پارٹی نظم و ضبط سے زیادہ دو وقت کی روٹی کی زیادہ فکرہوتی ہے۔ اس لئے یہ ایک طے شدہ تاریخی حقیقت ہے کہ کھلے آزاد معاشرے ترقّی کرتے ہیں عوام اپنی زنداگی اپنی خواہشات کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں۔ ریاست خواہ جتنی طاقتور ہو، عوام پر حکومت کا کنٹرول سخت ہو، نظم و ضبط کی پابند ہو، اظہار رائے کی کوئی اہمیت نہ ہو تو مان لیجئے کہ ایسی ریاست زیادہ عرصہ تک اپنی بنیاد برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ایک وقت آتا ہے جب اس ریاست کے معاشرے پابندیوں سے بوجھل ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
امریکا ایک سرد جنگ گزار چکا ہے اس کو چین سے سرد جنگ کی اس لئے ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ امریکا اور چین اپنی اپنی سرشت میں دونوں مستحکم معاشرے ہیں۔
ہرچند کہ امریکا یا چین سرد جنگ سے انکار کریں مگر بہرحال دونوں سرد جنگ کی کیفیت ہی سے گزر رہے ہیں۔ سرد جنگ آپس میں نظریاتی اختلافات، آپس میں ہر طرح کی مسابقت اور دو طرفہ عسکری قوت میں اضافہ وغیرہ سرد جنگ ہی ہے۔
تاہم یہ ایک مثبت اقدام ہے کہ امریکا سرد جنگ نہیں چاہتا ہے اس کا برملا اظہار کر رہا ہے۔ مگر عملاً دونوں بڑی طاقتیں ایک طرح سے سرد جنگ کے دور ہی سے گزر رہی ہیں۔
سرد جنگ کی اصطلاح اور نظریہ معروف سیاسی مبصر دانشور جارج اورپل نے 1945ء میں اپنے ایک مضمون میں دیا تھا جو اس دور کے میڈیا میں بہت مقبول ہوا اور آج تک یہ اصطلاح تحریروں، تقریروں میں استعمال ہوتی آئی ہے۔ جارج اورپل کہتا ہے کہ سیاسی معاشی عسکری طور پر دو طاقتوں کے مابین رقابت ہی سرد جنگ ہے۔ واقعی سرد جنگ کا دور گزری صدی کا بہت اہم دور رہا ہے۔ دُنیا کئی سرد و گرم سے گزری ہے۔ اگرچہ آج امریکا اس سے انکاری ہے مگر عین ممکن ہے مستقبل قریب میں صورت حال کچھ اورہو جائے۔
مثلاً تائیوان کا مسئلہ چین نےچھیڑ رکھا ہے، وہاں کیا ہو سکتا ہے کوئی حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا مگر مشرق بعید بحرالکاہل اور بحر ہند کا یہ خطہ بہت اہم ہے۔ یہ ایک اہم آبی گزرگاہ بھی ہے۔ اس گزرگاہ سے دُنیا کی 40فیصد سے زیادہ دو طرفہ تجارت ہوتی ہے۔ گزرے دور میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری، پھیلائو اور نظریاتی اختلافات سرد جنگ کی بنیاد تھے اب کچھ فرق ضرور ہے مگر حالات ویسے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یھر پہ مسئلہ بھی ہے کہ سپر پاورز کہتی کچھ ہیں اور کرتی کچھ ہیں۔
آج کی دُنیا گزری صدی کی دُنیا سے قدرے مختلف ہے خاص طور پر کرّۂ اَرض کے قدرتی ماحول اور موسمی تغیرات کی وجہ سے صورت حال بدل چکی ہے۔
آج کی دُنیا میں یا دُنیا میں کسی ایک طاقت کی یہ خواہش کہ وہ تنہا دُنیا میں اپنی حکمرانی قائم کرسکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سکندر اعظم اور اس سے قبل دور کے حکمراں دُنیا کو اپنا تابع بنانے کی جدوجہد میں ناکام رہے۔ جو کل ناکام رہا آج بھی ناکام ہوگا۔ بلاشبہ بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشروں میں جرمنی نے اپنی وار مشین کو انتہائی وسیع کیا مضبوط کیا اور پھیلایا اس کو یقین تھا کہ وہ دُنیا پر اپنا پرچم لہرائے گا، اپنے فسطائی نظریہ پر حکومت کرے گا، دُنیا اس کےقدموں میں ہوگی۔ نپولین نے بھی ایسا ہی سوچا تھا مگر سب کچھ اُلٹا ہوگیا۔
بعض رہنما نفسیاتی طور پر اپنی افواج دیکھ کر طاقت کے نشے میں یکطرفہ فیصلے صادر کرتے ہیں، دُوسروں کو دھمکاتے ہیں، جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ فتوحات کر لینا چاہتے ہیں وہاں سے معاملات بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں، سوویت روس، جرمنی، اٹلی اور دیگر کا حشر انجام سب کے سامنے ہے۔
سرد جنگ دوسرے معنی میں اعصابی جنگ بھی ہوتی ہے۔ امریکا نے یہ اعلان کر کے کہ امریکا چین سے سرد جنگ نہیں چاہتا اس نے آدھی سے زائد دُنیا کو اعصابی دبائو سے محفوظ کر دیا ہے۔
مگر چینگ لی جو شنگھائی میں ڈیفنس کالج کےسربراہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ سرد جنگ ہوگی یا نہیں بیکار بحث ہے جبکہ امریکا اورچین کے مابین سرد جنگ جاری ہے۔ یہ سرد جنگ2- ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں صدر شی جن پنگ نے جو بیانات دیئے ہیں اور دُنیاکی قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ اگر کوئی چین کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے گا تو اس کی آنکھ نکال دی جائے گی۔
سویڈش تحقیقی مرکز کی اسکالر ڈاکٹر ایلزبتھ کا دعویٰ ہے کہ صدر شی جن پنگ کے دور میں چین زیادہ مطلق العنان ریاست بنا جبکہ بیرونی دُنیا میں اس کا امیج جارحانہ پسند نظر آیا۔ پروفیسر چنگ لی کا کہنا ہے جب جب امریکا اور چینی حکام نمائندے آپس میں بات کرنے جمع ہوئے وہاں دونوں گروہوں کے مابین تلخ کلامی ضرور ہوئی ہے انہوں نے گزشتہ جی20- کانفرنس اور گلاسگو کی ماحولیاتی کانفرنس کی مثالیں پیش کیں۔
پروفیسر چینگ لی کا کہنا ہے گلاسگو میں امریکا کے مندوب نے کہا کہ دُنیا میں دو ممالک امریکا اور چین زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں کیونکہ قدرتی ایندھن زیادہ استعمال کرتے ہیں لہٰذا دونوں ممالک کو آلودگی کم کرنے کے لئے اپنے اپنے پروگرام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس پر چینی مندوب غصّہ سے پھٹ پڑا اور امریکا کوسب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ چین کسی کے کہنے پر نظرثانی نہیں کرے گا۔
ایسے میں دیگر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اچھے اثرات نہیں ہیں جب بھی امریکا اور چینی نمائندے یکجا ہوتے ہیں ان کے مابین آپس میں اُلجھ پڑتے ہیں۔ ایسے میں بڑی بڑی کانفرنسیں غیرسنجیدہ رویوں کی نذر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
گلاسگوکی ماحولیات کی کانفرنس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں پوری دُنیا کے سربراہان شریک تھے مگر روس اور چین کے سربراہ غیرحاضر تھے۔ گویا ان رہنماؤں کے نزدیک کرّۂ اَرض کا تحفظ اور موسمی تغیرات کے دُنیا پر پڑنے والے مہیب اثرات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ گلاسگو کانفرنس کے تمام شرکاء کو ان دونوں ملکوں کے رویوں پر بے حد افسوس ہوا تھا۔
چند روز قبل روس نے آواز سے زیادہ تیز رفتار بلاسٹک میزائل کا تجربہ کیا۔ یہ اب تک کا سب سے تیز رفتار میزائل بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ بلاسٹک میزائل اور بین البراعظمی میزائل کا سب سے بڑا ذخیرہ روس کے پاس ہے۔ اس کے باوجودمہلک ہتھیاروں کی تیاری کا جنون کم نہیں ہو رہا ہے جس پر یورپی مبصرین کو زیادہ فکر لاحق ہے ان کا کہنا ہے روس محض یوکرین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ نئے بہانے تلاش کر کے آگے پیش قدمی کر سکتا ہے کیونکہ صدر ولادی میر پیوٹن کے پاس روسی عوام کو دینے کے لئے کچھ اور نہیں ہے۔ جبکہ چین اب روس کی مدد سے اپنے خلائی پروگرام کومزید ترقّی دینا چاہتا ہے۔
حال ہی میں چین نے اپنا خلائی مشن شین زو2- خلاء میں تجربات کررہا ہے۔ چین کے خلائی ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ 2025ء تک چین جدید ٹیکنالوجی، خلائی ٹیکنالوجی میں امریکا پر سبقت لے جائے گا۔ اس طرح مستقبل قریب میں امریکا کے لئے دو بڑی طاقتیں روس اور چین پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے جبکہ دُوسری طرف مغربی یورپ میں فرانس اور جرمنی جو بڑی قوتیں ہیں وہ امریکا کی ڈکٹیشن سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ ایسے میں امریکا کے لئے مزید مصائب اور مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف روس اور چین کا اتحاد مضبوط اور مستحکم ہو رہا ہے۔ دُوسری طرف نیٹو کمزور پڑ رہا ہے۔ اگر فرانس اورجرمنی امریکا کے سیاسی اثر کے دائرے سے باہر آ گئے توواقعی یورپ میں سوائے برطانیہ کے باقی چھوٹے ممالک رہ جاتے ہیں۔
ایسے میں واقعی امریکا چین کےساتھ سرد جنگ نہیں لڑ سکتا۔ تاہم ابھی امریکا چین کی مسابقت چل رہی ہے یہ بھی خطرناک ہے اور یہ سرد جنگ بلکہ ایک قدم آگےگرم جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔ دُنیا چاہے گی کہ ایسا نہ ہو تو بہتر ہے۔