بلوچستان میں ہفتہ رفتہ کے دوران سیاسی ماحول انتہائی گرم رہا ایک جانب وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں دوسری جانب قریب 9 سال بعد کوئٹہ اور لسبیلہ کے سوا صوبے کے 32 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے، مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے قبل ہی ناکامی سے دوچار ہوگئی ، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے قرارداد پیش کرنے لئے 65 ارکان پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں 20 فیصد ارکان یعنی 13 ارکان کی حمایت حاصل نہ ہونے پر تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی جاسکی۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں حکمران اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان کی دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی تھی جس پر 26 مئی کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی ٹریک کو ٹیبل کرنے کے لئے 13 ارکان کی حمایت درکار تھی تاہم صرف 11 ارکان نے تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیا یوں عدم اعتماد کی تحریک ارکان کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل نہ کرسکی۔
یوں بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعلیٰ کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوسکی اس سے قبل ماضی میں سردار اختر مینگل ، نواب ثنا اللہ خان زہری اور جام کمال خان اپنے اپنے خلاف لائی جانے والی تحاریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل ہی مستعفی ہوگئے تھے، یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر دستخط کرنے والے تین ارکان بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سنیئر صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی، پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر مبین خان خلجی اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی مشیر نعیم خان بازئی عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے کے موقع پر ایوان میں موجود ہی نہ تھے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے معاملے پر مخلوط صوبائی حکومت میں شامل حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی بھی تقسیم نظر آئیں تینوں جماعتوں کے کچھ ارکان تحریک عدم اعتماد کے حق میں اور باقی خلاف نظر آئے، اس دوران بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی کا اجلاس وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی صدرات میں ہوا جس میں 16 ارکان نے شرکت کی اس اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان بلوچستان اسمبلی کو الگ الگ لیٹرز کے زریعے تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہ کرنے کی ہدیات کرتے ہوئے کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی صورت میں پارٹی ارکان کے خلاف پنجاب اسمبلی کے ارکان کی طرز پر کاروائی کی جائے گی۔
جبکہ اسی دوران سابق وزیراعلیٰ جام خان کی جانب سے بھی اپنی جماعت کے ارکان کے نام الگ الگ لیٹر جاری کیے گئے جن میں تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی حمایت نہ کرنے کی صورت ارکان کے خلاف نہ صرف کارروائی بلکہ ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کی طرز پر ڈی سیٹ کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا تاہم اب جبکہ تحریک عدم اعتماد کی قسمت کا فیصلہ اب جبکہ ایک ہفتہ بیت چکا ہے لیکن نہ تو وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینے والے اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا ساتھ نہ دینے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی ان سطور کے تحریر کیے جانے تک سامنے نہیں آسکی۔
یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے طویل عرصے سے اور بار بار اعلانات کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن بھی نہیں ہو پارہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ پارٹی کے رہنماوں کا ایک پیج پر نہ ہونا بھی ہے ، صوبے کے سیاسی حلقوں میں یہ موضوع بھی کافی عرصے سے زیر بحث رہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے استحکام اور خاص طور پر آئندہ عام انتخابات میں اس کی بہتر کارکردگی کے لئے اس کے انٹرا پارٹی انتخابات ناگزیر ہوگئے ہیں اس بات کا یقینی طور پر وزیراعلیٰ بلوچستان کو بھی ادراک ہے اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد ایک پریس کانفرنس میں جہاں دیگر امور پر کھل کر بات کی۔
وہیں آئندہ ہفتہ دس دن میں جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا ایک بار پھر عندیہ دیا اب دیکھنا ہے کہ اب جبکہ صوبائی بجٹ کی تیاری کے میں بھی بہت ہی کم وقت رہ گیا ایسے میں بی ائے پی کے انتخابات ہوتے ہیں یا ایک بار پھر اعلان کے باوجود یہ معاملہ گئے چلا جائے گا ، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی بڑی جماعت جمعیت علما اسلام پر تحریک عدم اعتماد کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے بھی کئی روز تک نگاہیں جمی رہیں اس دوران جمعیت علما اسلام کی صوبائی شوریٰ اور پارلیمانی گروپ کے اجلاس بھی ہوئے جبکہ جمعیت علما اسلام کے صوبائی امیر وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع سے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو و حکومتی ارکان اور تحریک عدم اعتماد کے حامی ارکان کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور سنیئر سیاستدان سردار یار محمد رند کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
جبکہ اس دوران سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے بدلے ان سے پی ڈی ایم میں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کی قیادت کی جانب سے بلوچستان میں کسی ممکنہ تبدیلی کی صورت میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا تاہم تحریک عدم اعتماد میں جمعیت علما اسلام کی جانب سے ساتھ نہ دیئے جانے پر جام کمال خان نے صحافیوں کے وفاقی حکومت کا مزید ساتھ یا نہ دینے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک فوری نوعیت کا مسلہ ہے اس پر غور کے بعد لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔