بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب عوام گوں مگوں کا شکار ہے ان حالات میں سندھ میں بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کا بھی اعلان کیا جاچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں سندھ کے 14اضلاع میں (گھوٹکی، سکھر، خیرپور، جیکب آباد، کشمور، قمبر شہداد کوٹ، لاڑکانہ، شکارپور، نوشہروفیروز، شہیدبینظیرآباد، سانگھڑ، میرپور خاص، عمرکوٹ اور تھرپارکر) میں براہ راست پولنگ 26جون کو ہوگی جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں دوسرے مرحلے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا۔
بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں انتخابات ہونگے انتخابات کا انعقاد 24 جولائی 2022کو کیا جائے گا بلدیاتی انتخابات کی نامزدگی کے پیپرز3جون کو جاری کئے جائیں گے۔ ریٹرننگ افسران پیپیرز جاری کرینگے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی 8 جون سے 11 جون تک جمع کروائے جاسکیں گے، نامزد امیدواروں کی لسٹ کا اجراء 13 جون کو ہوگا، نامزدگی درخواستوں کی اسکروٹنی 15سے17جون تک کی جائے گی درخواست نامزدگی کی منظوری یا مسترد ہونے کی صورت میں اپیل 18 سے 22 جون تک جمع کروائی جاسکیں گی فائنل نامزدگی لسٹ 27جون کو جاری کی جائے گی،28 جون تک نامزد امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوسکتے ہیں، 29 جون کو امیدوران کو انتخابی نشانات الاٹ کئے جائیں گے، 24جولائی کو انتخابات اور 28 جولائی کو انتخابات کے نتائج کا حتمی اعلان ہوگا الیکشن کمیشن نے ہدایت کی ہے کہ دوران الیکشن پروسس سندھ حکومت یا بلدیاتی ادارے ترقیاتی اسکیمیں شروع نہیں کرسکتے نہ ہی اس دوران بلدیاتی اداروں میں تبادلوں وتقرریوں کا عمل ہوگا تبادلے، تقرریاں یا چھٹیاں الیکشن کمیشن کی منظوری کے تابع ہونگی۔
گرچہ سپریم کورٹ کے حکم اور مختلف سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے بعد بلدیاتی انتخابات کے لیے بنائی گئی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل سلیکٹڈ کمیٹی تین ماہ دس دن کے بعد بھی قانون سازی نہیں کر پائی جس پر ہائیکورٹ بھی برہم ہوئی تھی پارلیمانی جماعتوں سلیکٹڈ کمیٹی میں شامل پارلیمانی جماعتوں نے رائے دی ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخاب مکمل قانون سازی تک ملتوی کرائے جائیں جبکہ جماعت اسلامی کے رکن عبدالرشید نے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے وزیربلدیات ناصر حسین شاہ نے کہاہے کہ ہم نے گزارش کی ہے کہ انتخابات کے عمل کو جاری رکھا جائے۔
رکن جماعتوں کی تجاویز آئی ہیں جنہیں انصاف رائے سے فیصلے کے بعد قانون کا حصہ بنایا جائے گا۔ کمیٹی میں شامل پی ٹی آئی، جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور تحریک لبیک کا موقف ہے کہ پہلے قانون سازی کی جائے پھر انتخابی شیڈول جاری کیا جائے، ایم کیو ایم کے محمد حسین کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ قانون سازی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہو، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ انتخابی قوانین کے لیے بنائی گئی کمیٹی مقررہ وقت پر کام مکمل نہیں کرپائے گی، چھ میں سے پانچ جماعتیں انتخاب کا التوا چاہتی ہیں ابھی بھی ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے عبدالرشید کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخاب سے راہ فرار اختیار کررہی ہیں کہاجارہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ذہنی طور پر انتخاب کے لیے تیار نہیں اور انہیں شکست کا خوف ہے۔ ادھر سندھ ہائیکورٹ نے بلدیاتی الیکشن روکنے سے متعلق جی ڈی اےکی درخواست مسترد کردی جبکہ فاضل عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواست واپس لینے پر خارج کردی۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے تحت حقوق کراچی کا رواں نکالا گیا جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی اور اس موقع پر شہرحقوق کراچی کے نعروں سے گونج اٹھا۔حافظ نعیم الرحمن نے سپر مارکیٹ پر جلسہ عام سمیت متعدد مقامات پر خطاب کیا۔
انہوں نے خود بھی شہر میں پانی کے شدید بحران، ٹینکرمافیا اور واٹر بورڈ کی ملی بھگت اور کراچی کے لیے 650ملین گیلن کے K-4 منصوبے میں کٹوتی، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتی، شدید لوڈشیڈنگ اورنرخوں میں اضافہ، کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی اور جعلی مردم شماری کے خلاف کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے جائز و قانونی حقوق کے حصول اور گھمبیر مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی کے تحت اتوار کو مزار قائد سے ایک عظیم الشان اور تاریخی ”حقوق کراچی کارواں“نکلا گیا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں قانون سازی پر تنقید کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سندھ حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ ای وی ایم الیکٹرونک میشن کے ذریعے ووٹنگ نہ کرانا ، اوورسیز پاکستانیوں سے ووٹ کا حق چھین لینے کا بل پاس کرانا اور اپنے کیسز میں ریلیف لینے کے لیے نیب قوانین اور ترامیم کرنے سے حکومت کے عزائم قوم کے سامنے آچکے ہیں، یہ لوگ حکومت میں صرف این آر او لینے آئے تھے، جبکہ پی پی پی کراچی ڈویژن کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی نے پی ٹی آئی کو سخت تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اس وقت مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا جو معیشت کی حالت عمران خان چھوڑ کر گیا وہ سامنے ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے پی ٹی ائی حکومت نے کیا، عمران خان بزدل آدمی ہے،نت نئی کہانیاں عمران خان کیجانب سے آتی رہتی ہیں اب وہ کہتے ہیں حکومت اسرائیل سے ملنے جارہی ہے تاریخ گواہ ہے سیاسی کارکنوں نے کتنی جدوجہد کی ہے جو سیاسی لیڈر گرفتاری سے ڈرتا ہو وہ کیسا کپتان ہے، ریاست کے نظام حکومت کو بلاک کرنا چاہتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے پرامن جدوجہد کی ہے اظہار رائے کی آزادی کی ایک حد ہوتی ہے عمران خان کو غلط فہمی ہوگئی ہے پولیس افسران کو بھی عمران خان دھمکیاں دیتا رہتا ہے سپریم کورٹ سے درخواست یہی کررہا ہے کہ اسے گرفتار نہ کیا جائے اڑتالیس گھنٹے حوالات میں عمران خان رہیگا تو سب سمجھ آجائے گی۔