احسن اقبال
زمانے کی ترقی کی رفتار جس قدر تیز ہوتی جا رہی ہے ،اسی حساب سے ہر شعبہ حیات میں نوجوانوں کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔قیام ِ پاکستان سے دورِ حاضر تک نوجوان نسل ہر طبقہ فکر کے لئے اہمیت کی حامل رہی ہے۔ نوجوان نسل تحریک ِ پاکستان میں شامل نہ ہوتی اور اپنی کوششوں کے ذریعے مسلم لیگ کو توانا نہ کرتی، جوق در جوق قافلوں کے ولولوں کو نہ بڑھاتی تو ہوسکتا ہے کہ اس کو وہ کامیابی نہ ملتی جو نوجوانوں کی وجہ سے ملی لیکن اگر ہم آج کے دور کی بات کریں تو اس وقت نوجوانوں کا سیاست میں کردار صرف نعرے اور جلسے و جلوس کے پوسٹرز آویزاں کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں نوجوان طبقہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ سیاسی سطح پر اہل سیاست کے ہاتھوں سیاسی استحصال کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ یعنی ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں نسل نو کی تربیت کرنے کے بجائے اس کا استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ کسی نے بھی ان کی کردار سازی نہیں کی۔ سیاست کے لئے کسی ڈگری کی نہیں بلکہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی نرسریاں کالجز اور جامعات ہیں۔
طلبہ یونینز کی بحالی سے ہی نوجوانوں کا سیاست کی طرف رجحان میں اضافہ کیا جا سکتا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب پڑھے لکھے نوجوان پارلیمنٹ میں جائیں گے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے تو ملک کو فائدہ ہو گا۔ مسائل و مصائب سے نمٹنے کا اگر کسی میں دم خم ہوتا ہے تو وہ نوجوان ہی ہوتے ہیں، جو قوم میں نئی زندگی اور انقلاب کی روح پھونکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیشتر قوموں کی بیداری اور ان کے انقلاب کا سہرا نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔
اگر اس بات کی تشویش ہے کہ ہماری نئی نسل اخلاق کی انتہائی پست سطح تک گرچکی ہے تو پھر سب سے بڑا جہاد یہ ہونا چاہیے کہ بچوں اور ٹین ایجرز کو گھر اور اسکول میں اچھے اخلاق کا صرف درس ہی نہ دیا جائے بلکہ ان کے رگ و پے میں اسےاتار دیا جائےلیکن افسوس تو یہ ہے کہ ٹین ایجرز کو اخلاقیات سکھانے والی ہماری درسگاہیں غیر فعال ہوچکی ہیں، سچ بولنے، نرمی سے گفتگو کرنے، بڑوں کا احترام کرنے، چوری، فراڈ اور چیٹنگ سے نفرت کرنے، نشہ آور ڈرگز سے بچنے، ڈسپلن قائم کرنے اور قوانین کا احترام کرنے کی تعلیم نہ گھروں سے مل رہی ہے، نہ درسگاہوں سے نہ میڈیا سے اور نہ ہی سیاسی رہنماؤں سے بلکہ سیاست دانوں کے منہ سے نفرت کی آگ نکل رہی ہے ،وہ ایک دوسرے پر آگ کے گولے برسارہے ہیں۔
انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر لیڈر سرِعام اپنے مخالفین کے لیے رکیک جملے کہے گا، انہیں نازیبا الفاظ سے مخاطب کرے گا تو نوجوان اُن سے کیا سیکھیں گے۔ نوجوانوں کو ایک ایسا نظام درکار ہے جو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے سکے اور آگے بڑھنے کے تمام مواقع بھی فراہم کرسکے۔
اخلاقی اور سیاسی تربیت ضروری ہے، تعلیمی اداروں کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کے نوجوانوں کو امن وآشتی کے اعلیٰ آدرشوں سے روشناس کروائیں تاکہ وہ وقت آنے پر امن و امان کے قیام کی ذمہ داری کا فریضہ بھی سنبھال سکیں اور اپنے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم طلبہ میں امن و برداشت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے اپنا بہترین کردار بھی نبھاسکیں۔
اساتذہ مستقبل سازی اور مثبت تعمیری اوصاف ان کی شخصیت میں پیدا کریں، احترام انسانیت کے درس کے ساتھ عزت نفس کے جوہر سے انھیں آراستہ کریں، شخصی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں، اندھیری گلیوں سے نکال کر اعتماد کی راہوں پر گامزن کریں، ارتقاء ،ترقی اور کامیابی کے حقیقی معنی سےآگاہ کریں قوت فیصلہ کی صلاحیت اجاگر کریں۔ یہ تمام اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔
نوجوانوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ آج کی دنیا علم اور صلاحیت کی دنیا ہے، اس میں وہی لوگ اپنے لیے جگہ بناسکیں گے جو مثبت تعمیری اوصاف کے حامل ہوں گے۔ علم اور اپنی صلاحیت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے۔ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں زیادہ باخبر ہونا چاہیے اور اپنے اچھے اور برے کی تمیز کا فرق معلوم ہونا چاہیے۔
یاد رکھیں یہ جو حالات سے گمراہی کا عمل ہوتا ہے وہ اندھیروں کی طرف دکھیل دیتا ہے ماضی کے تجربات سے سیکھ کر درست راستے کا چناو ٔکریں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ نوجوان تحمل مزاجی سے پرامن رہ کہ اس معاشرے کی تجدید وترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ فساد ،گروہ بندی ،انتشار سے گریز کریں۔