اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے ’ہائی پروفائل مقدمات پر اثر انداز ہونے کیلئے تفتیشی اور استغاثہ کے اداروں میں بعض اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مبینہ مداخلت‘ کے خدشہ کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران حکومت کو ای سی ایل رولز میں کی گئی ترامیم کو قانونی دائرہ کارمیں لانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے نیب اور ایف آئی اے میں زیر تفتیش تمام ’ہائی پروفائل مقدمات‘ کا ریکارڈ سافٹ کاپی کی صورت میں جمع کرانے کا حکم جاری کیاہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹیو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، حکومت ترمیم کرے ورنہ عدالت خود حکم جاری کریگی جو ہوسکتا ہے مشکلات پیدا کردے، ہمیں امید ہے کہ حکومت نئے چیئرمین نیب کی تقرری پر احتیاط کا مظاہرہ کریگی.
عدالت اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے ،حکومت سے اچھی توقع ہے،ایسے شخص کو بھی رہا کردیا گیا جسے عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا، چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہدایت کی کہ نیب پر اگر کوئی دبائو ڈالنے کی کوشش کرے تو وہ عدالت کو آگاہ کریں، جن مقدمات میں شواہد نہیں نیب انہیں واپس لے.
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ای سی ایل میں شامل ایک فرد اہم حکومتی معاشی فیصلے کر رہا ہے، مناسب ہوگا کابینہ ایسی بنے جسکا نام ای سی ایل میں شامل نہ ہو، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری رائے تو تو ای سی ایل ہونا ہی نہیں چاہیے، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی ذاتی رائے پر نہیں جائینگے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعہ کے روز از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بدعنوانی ایک سنگین نوعیت کا جرم ہے اور نیب کا ہر کیس ہی بدعنوانی سے متعلق ہوتا ہے.
نیب حکام ہر ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں کرواتے ہیں،نیب کی رپورٹ کے مطابق اربوں روپے کرپشن کے مقدمات کے ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں، اگر نیب یا کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی کیخلاف تحقیقات کر رہا ہو تو حکومت کی چاہیے اسکا نام ای سی ایل سے نکالنے سے پہلے متعلقہ ادارے سے مشاورت کرلے،ہم چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کر کے سب سے یکساں انصاف کیا جائے .
عدالت اس بات کاجائزہ لے گی کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیوں کیا گیا ہے، اگر عدالت میں مقدمہ کے ٹرائل کے دوران پراسیکیوٹر کہے کہ اسے مقدمہ کاریکارڈ نہیں مل رہا ہے تو تکلیف ہوتی ہے.
نیب کے مقدمات میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ریکارڈ نہ ملا ہو،کسی ایک مقدمہ میں مواد نہ ہو تو الگ بات ہے،عدالت کو آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے تشویش ہے،ایسا نہ ہو کہ مواد موجود ہو اور گواہان کو خاموش کروا دیا جائے۔ انہوںنے ریمارکس دیئے کہ نیب کے جن جن مقدمات میں شواہد موجود نہیں ہیں انہیں واپس لے لے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں رہنا چاہیے، نچلی عدالتوں کے غلط فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں جاکر تبدیل بھی ہو جاتے ہیں،تاہم نوے فیصد فیصلے اعلی عدالتوں میں بھی برقرار رہتے ہیں۔
عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سنگین جرائم والوں کو صلح کی بنیاد پر بھی معافی ملنی چاہیے یا نہیں؟ فاضل چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سول سرونٹ ہیں، کسی کی مداخلت کوتسلیم نہ کریں، اگر کوئی دبائو ڈالتا ہے تو عدالت کو بتائیں آپکو مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کیلئے حکومت کو کون کہتا ہے؟کس سے پوچھا جاتا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل،اشتر اوصاف علی نے بتایا کہ ہمارے پاس متعلقہ تحقیقاتی ادارے سے ایک خط آتا ہے کہ متعلقہ شخص سے تفتیش جاری ہے۔