کراچی (رپورٹ/اعجازاحمد)پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر خطیر اضافے کے ساتھ ہی انٹر سٹی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں فوری طور پر مزید 20 اضافہ کردیا گیاجبکہ رکشے اور آن لائن ٹیکسی سروس والے بھی منہ مانگا کرایہ وصول کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے عوام رُل گئے ہیں جبکہ سپریم کونسل آف آل پاکستان ٹرانسپورٹرز نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد ٹرانسپورٹرز سے ہڑتال کی اپیل کردی۔ ایک ہفتے میں پٹرول ،ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 60 روپے فی لیٹر اضافے سے براہ راست غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شہری متاثر ہوئے ،لیکن حکومت مختلف ممالک کی مثالیں دے کر بتارہی ہے کہ ہمارے ملک میں فی لیٹر پٹرول فلاں، فلاں ملک سے اب بھی سستا ہے! اس ضمن میں شہریوں نے جنگ کو فون کرکے استفسار کیا کہ کیا حکومت اور اس کی حمایت کرنے والے نام نہاد ماہرین معاشیات یہ بتانا بھی پسند کریں گے کہ ان ممالک میں ایک فرد کی سالانہ آمدنی کتنی ہے؟ اسے حکومت کی طرف سے کیا کیا سہولتیں میسر ہیں؟ اور ان ممالک میں مہنگائی یا افراط زر کا تناسب کیا ؟ یاد رہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گذشتہ اضافے کے ساتھ ہی کراچی میں چل رہیں بسوں، منی بسوں، کوچز اور چنگ چی نے پہلے ہی کرایوں میں 33فیصد سے زائد اضافہ کردیا ہے ، جب کہ شہر میں بناء میٹر چلنے والے رکشے اور آن لائن ٹیکسی سروس والے بھی منہ مانگا کرایہ وصول کررہے ہیں۔ دوسری جانب انٹر سٹی چل رہی بسوں اور کوسٹرز وغیرہ نے بھی اپنے کرایوں میں پہلے 20فیصد اضافہ کیا تھا اور اب مزید 20فیصد اضافے سے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں مجموعی طور پر 40فیصد اضافہ ہوگیا ہے، جس کے باعث کراچی سے اندرون ملک جانے اور آنے والے مسافروں خصوصاً مزدور طبقے پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔نیز گڈزٹرانسپورٹرز بھی پہلے ہی 30 فیصد تک کرایے بڑھا چکے ہیں۔