• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارے پہاڑوں پر جنگلوں میں آگ لگائی جا رہی ہے یا لگی ہوئی ہے۔ سارے ڈیموں میں پانی خشک ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں بھی پانی نہیں ہے۔ لوگ کھلا تیل خریدتے تھے کہ آج کی ہنڈیا پک جائے، کل کی کل دیکھیں گے۔ ملاوٹ کے خوف سے اور سچ بھی یہی ہے، اس لئےکھلا تیل بیچنے پر پابندی ہے۔ ڈبوں میں بند تیل خریدنے کی سکت ہماری اسی فیصد آبادی میں نہیں ہے۔ آپ نے شاید سنا ہو کہ مختلف ناموں سے جو ٹیکسیاں متعارف ہوئی تھیں ان میں جن لوگوں نے ٹیکسی چلانی شروع کی تھی اور یوں اپنی روٹی کمارہے تھے، ان سب نے پیٹرول کے مزید مہنگا ہونے کے بعد، یہ کام چھوڑ دیا اور بیروزگار ہوگئے ہیں کہ وہ پیٹرول گاڑی میں ڈلواتے تو کمائی اُسی پر لگ جاتی اور گھر خالی ہاتھ لوٹتے تھے۔ دفتر وں میں جن کے پاس گاڑیاں تھیں وہ سب کبھی گاڑی تو کبھی گھر تو کبھی دفتر کے فاصلے کو دیکھتے ہیں اور پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں کہ آمدنی تو اس چادر کی طرح ہوگئی ہے کہ سرڈھکو توپیر ننگے۔ رہا پبلک ٹرانسپورٹ کا سلسلہ تو اس کیلئے چاہے کراچی ہو کہ اسلام آباد، شور مچتا ہے کہ چین سے گاڑیاں آرہی ہیں۔ وہ کتنی ضرورت کو پورا کرسکیں گی۔ یہ جائزہ لینا سرکار کا کام نہیں۔ جہاں تک اشرافیہ کا تعلق ہے ان کے پاس دنیا بھر کی نت نئے فیشن اور ڈیزائن کی گاڑیاں موجود ہیں اور اب میاں منشا سامنے آگئے ہیں ،بار بار کہہ رہے ہیں کہ بس بہتر حالات کے انتظار کے دن تھوڑے ہیں۔ سارے ماہرین معیشت (جوکہ اچانک بہت ہوگئے ہیں) وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اشرافیہ اپنے ذمے جتنا ٹیکس ہے وہی دینے لگےتو کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر سال بجٹ سے پہلے ، یہ باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ بقول مشتاق احمد یوسفی ، ہمیں پھر اعداد و شمار کے چکر میں پھنسا کر ، بہتر ، اچھا اور بہترین کا ڈھنڈورا، سارا میڈیا بجانے لگتا ہے۔ ہم سب روز کی پانچ روپے کی پیاز لاکر ہنڈیا بھون لیتے تھے۔ سبزی والا پانچ روپے دیکھ کر ہنستا اور جواباً ہرا دھنیہ پکڑا دیتا ہے۔ سائیکل پہ رکھے سامان بیچنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں۔ سرکار قسم کی پارٹیاں تو چھوڑیں کہ ان سب کو ووٹ بہت کم اور آزاد امیدوار زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ قوم دیکھ چکی ہے کہ منتخب نمائندے، اپنے علاقوں اور اسمبلی میں کیا گل کھلاتے رہے ہیں۔ اسلئے اب شاید آزاد ہی ان کے نمائندے بن کر سامنے آئیں۔ ان الیکشن میں، گوادر کو حق دو، والے لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ اُنہیں تو اب پتہ چلا ہے کہ سی پیک کا کام اور نام، گزشتہ ساڑھے تین سال سبز باغ دکھایا جاتا رہا۔ اشرافیہ، وڈیروں، جاگیرداروں کے ٹرالر آتے رہے۔ وہ گوادر جسے ملک فیروز خان نون نے ، عمان سے حاصل کیا تھا، خیال تھا کہ یہ ساحلی بندرگاہ بنے گی۔ بہت لوگ اور بہت نوٹ آئیں گے۔ ہوا کیا، ان کی زمینیں بھی، بہت سے بدنامِ زمانہ پراپرٹی ڈیلرزنے کہیں سامنے آکر اور کہیں درپردہ اونے پونے داموں خرید لیں، اور بے درودیوار والے، عورتوں سے مچھلیاں صاف کرواتے، وہی سوکھی روٹی کا بندوبست کرتے رہے۔ چین بھی اب تجارتی معاملات میں بہت بڑی طاقت بن چکا ہے، وہ گوادر کو بہت بڑی بندرگاہ، آپ کیلئے نہیں اپنی تجارت کیلئے بنانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے سرمایہ دار جو ٹائون پہ ٹائون بنائے چلے جارہے ہیں۔ فائدہ، غریبوں کو نہیں ۔ اشرافیہ کی امارت پھیلتی جارہی ہے ۔ جس ملک میں 80فیصد غریب اور متوسط طبقے اور 20فیصد اشرافیہ ہو، وہاں پہ بجٹ بھی وعدۂ فردا پہ ٹالنےوالا ہوتا ہے۔ محترم شہباز شریف کو تو زبردستی گلے میں پڑا ڈھول بجانا پڑ رہا ہے۔ سیاسی سطح اور عالمی صورتِ حال بھی کوئی خوش آئند نہیں ہے۔ پہلے تو اس بھول بھلیاں سے نکل کر یہ بتائیں کہ جو وفد اسرائیل گیا، وہ گیا تو عمران کے دور میں تھا۔ واپس آیا تو جانے والی حکومت نے ایک بار پھر یوٹرن لے لیا۔ کہا کہ یہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتی ہے۔ بقول شاعر مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا۔ عالمی سطح پر اعلیٰ سطح کے اسرائیلی وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور مفاہمت کی بات چیت ہورہی ہے۔ دوسری طرف وہی جو بائیڈن جسے عمران سے بات کرنا گوارا نہ تھا، وہ اب سعودی شہزادے سے معاملات طے کرنے سعودی عرب جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ویسے یوکرین میں جو قیامت سو دن سے جاری ہے۔ اس پر روس کے خلاف سارے بڑے ممالک اجلاس کرتے اور قرارداد پاس کرتے اور یوکرین کی گندم خریدنے پر آمادگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں چین اور امریکہ کی اندر خانے لڑائی کے باوجود، ہر طرح کا بزنس جاری ہے۔ بس یہ انڈیا اور پاکستان دونوں میں تیلی لگانے والے دہشت گرد، گھر پھونک تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ اب تو بی جے پی نے رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ اقدس پر نعوذ باللہ رکیک جملے کہے ہیں کہ کینیڈا تک نے تکذیب کی ہے۔ لوگوں کی توجہ ہٹانے اور انڈیا کو صرف ہندوئوں کا ملک بنانے کی مہم میں ابھی تو تاج محل اور قطب مینار کے خلاف باتیں کررہے تھے۔ اور اب تو ساری دنیا لعن طعن کر رہی ہے۔ جبکہ معاشی سطح پر اگر دونوں ملک تجارت کو فروغ دیں تو بی ۔ جے ۔ پی کا نہیں، تحریک لبیک کا نہیں دونوں ملکوں کے غریب عوام کا فائدہ ہوگا۔

لکھتے لکھتے ، میں بھول گئی کہ مجھے تو پاکستان کی کامیابیوں پر لکھنا تھا۔ عالمی سطح پر جاپان عالمی نمائش میں ، ہماری دوست شازیہ سکندر کو بہترین آرٹسٹ کا انعام ملا ہے۔ اور سنیں کانز کے عالمی فلمی میلے میں پاکستان کی غیر سرکاری فلم جو صائم صادق نے بنائی ’’Joyland‘‘ اس پر دنیا بھر میں تعریفی فیچر لکھےجارہے ہیں۔ کوہ پیما شہروز کاشف نے تن تنہا دنیا کی سات چوٹیاں سر کی ہیں۔ یہ سب کامیابیاں تقاضا کرتی ہیں کہ حکومت پاکستان اور وزیراعظم بھی خود ان کو بلاکر، حکومتی اعزاز دیں مگر کیسے، بجلی، پانی، گیس کی تو ہاہاکار مچی ہے۔

تو پھر کفایت شعاری کیلئے شدید اصلاحات شروع کریں۔ ایک تو یہ جلسہ جلسہ کھیلنا، ساری سیاسی جماعتیں بند کریں۔ عوام جو پیٹرول کی قیمتوں سے تنگ ہیں، ان کو متبادل نوکریاں ایسے فراہم کریں کہ سارے کروڑ پتی کارخانہ داروں کو ہر فیکٹری میں 100بیکار نوجوانوں کو بس 25ہزار روپے پر ہی عارضی ملازمتیں دلوائیں۔ جو کام سیکھ جائیں، ان کو باقاعدہ نوکری دیں۔ ہمارے سارے علاقے جہاں اسکول ہی نہیں، وہاں کے نوجوانوں کے لئے معاوضے کے عوض، بنیادی تعلیمی مراکز قائم کرنے کیلئے ہر علاقے کے ایم این اے اور صوبائی بحران کو ملنے والے فنڈز میں سے تعلیم اور صحت کے لئے کام کرنے والوں کو معاوضہ دیں۔ دنیا بھر میں کانفرنسوں میں زوم کے ذریعہ شرکت کریں اور غیر ملکی سفر پہ سرکاری فنڈز استعمال کرنے پر پابندی لگا دیں۔ جہیز اور 50سے زائد مہمانوں کی شادیوں میں شرکت پر پابندی۔ مگر یہ سب کرنے کے لئے، قوم کو تیار تو کریں۔

تازہ ترین