امتحانات کازمانہ آتے ہی نوجوان نسل کے رویے میں تبدیلیاں رونما ہونی شروع ہوجاتی ہیں، کچھ طالب علم امتحان سے خوفزدہ نظر آتے ہیں تو کچھ بہت مطمئن کہ انشااللہ اچھے نمبروں سے پاس ہوکر آگے بڑھیں گے اورایسے بھی طالب علم ہیں جو اس موقعے پر تعلقات اثر رسوخ اور دیگر روابط میں مصروف ہوکر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کی جتن میں لگ جاتے ہیں۔کچھ دنوں پہلے میری ایک عزیز کے ہاں جانا ہوا جو ایک نوجوان ڈاکٹرہے۔
میں نے ان سے کہا کہ،’’ میرے بیٹے کے امتحانات ہونے والے ہیں اس نے پری میڈیکل لیا ہے۔ آپ ذرااس کی رہنمائی کردیں‘‘ ۔امتحانات کے موضوع پر ان سے بات ہو رہی تھی کہ انہوں نے کہا مجھے وہ وقت یاد آگیا جسے گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔ یہ امتحانات کا زمانہ ہی تھا، میں بھی دن رات امتحانات کی تیاری میں مصروف عمل تھا کہ ایک دن کالج کی لائبریری سے واپسی پر اپنے ایک ہم جماعت سے ملاقات ہوگئی، بڑی گرم جوشی سے ملنے کے بعد اس نے پوچھا،’’ کیا کررہے ہو؟‘‘
میں نے کہا’’ وہی پڑھائی بلکہ اب تو امتحانات کی تاریخ بھی آگئی ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے مصروفیت بڑھ گئی ہیں، یہ تو بتاو ٔ کس نوعیت کی تیاری کررہے ہو۔‘‘ہم جماعت نےپوچھا۔
’’ وقت کو مختلف مضامین کے حساب سے تقسیم کر کےایک شیڈول ترتیب دیا ہے، اس کے مطابق تیاری کا آغازکیا ہے یعنی سب سے پہلے تو تمام مضامین کی کتابوں کا تفصیلی جائزہ لینا ہے، اہم مضوعات پر نشان لگانا پھر ان کو پڑھنا ہے تاکہ MCQ کی بھی تیاری ساتھ ہوجائے۔ کتاب کے ہر سبق کو پڑھنے کے بعد خود ہی ان کے سوالات بناکر گھڑی میں ٹائم دیکھ کر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ لکھنے کی بھی روانی ساتھ ہوتی جائے۔‘‘میں نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
دوست نے کہا، اس کا مطلب ہے کہ تمھاری پوزیشن پکی ہے۔‘‘
مستقبل کا کیا پروگرام ہے؟اُس نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا۔
’’پہلے تو پڑھائی مکمل کرنی ہے اور جس شعبے میں جانے کی خواہش ہے، اچھے نمبر آگئے تو مستقبل میں اسی شعبے کا انتخاب کروں گا،تاکہ والدین کی توقعات پر پورا اترسکوں آگے اللہ تعالیٰ کی مرضی۔ میں نے اس کے انداز کو بھانپنے کے باوجود تسلی سے جواب دے کر اس سے پوچھا کہ اب تم بتاؤ تمھاری تیاری کیسی جارہی ہے‘‘؟
’’اس کی تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ گھر میں بھی سب سے یہی کہتا ہوں کہ، میری پڑھائی میری مرضی میرے پاس تو بالکل وقت نہیں ہے امتحان کی تیاری کروں لیکن اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ تم سے اچھے نمبر میرے آئیں۔ تم تو ابھی تک پڑھائی کے کیڑے بنے ہوئے ہو، اب باہر نکل آؤ۔ آج کل شارٹ کٹ کا زمانہ ہے۔‘‘ اسی دوران وہ تین چارسگریٹ اور کچھ نہ کچھ کھاتا رہا ۔
میں نے کہا سگریٹ کم کردو یہ اچھی چیز نہیں ہے، پیسے اور صحت دونوں کا ضیائع ہے۔‘‘
’’ یہ عام سگریٹ نہیں اور پیسے کی کوئی فکر نہیں ہے یہ خاص اور اسپیشل سگریٹ ہے جو اسپیشل لڑکے ہی پیتے ہیں، خیر چھوڑو تم کیا جانو کتابی کیڑے، یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔
’’اچھا یہ بتاؤ تم نے کہا کہ مجھ سے اچھے نمبر آئیںگے، جب تم نےکتاب کھول کر ہی نہیں دیکھی توپھر کیسے آجائیں گے‘‘۔ بہت کچھ سمجھنے کے باوجود اس سے پوچھا۔
’’تم کس زمانے میں رہتے ہو۔ اب تو نقل کے طریقے بھی بدل گئے ہیںپہلے تو بچے کتابیں پھاڑ کر،مائیکرو بناکر رات کو چھوٹی چھوٹی پرچیاں لکھ کر نقل کرتے تھے اور ڈرتے تھے کہ پکڑ ے نہ جائیں،اب توکسی بھی سینٹر کے مخصوص کمرے میں بیٹھ کر کتابیں، نوٹس کھول کرپرچہ کیا جاتا ہے اگر میں چاہوں تو سینٹر کے باہر گاڑی میں بیٹھ کر بھی پرچہ حل کرسکتا ہوں، اور سنو میری جگہ کوئی بھی لڑکا پرچہ دینے کو تیارہوجاتا ہے، بس اس کے لیے پیسہ اور تعلقات ہونے چاہیے ہاں ایک بات تم بھی سن لو، تم اپنے پرچے زیادہ اچھے مت دینا کیوں کہ تمہاری کاپی کے صفحے کسی اور کاپی میں منتقل بھی کیے جاسکتے ہیں اس دور میں سب چلتا ہے۔اس نے بڑے فخریہ انداز میں بتایا۔
’’ ایسا کب تک چلے گا اس طرح تو نااہل ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ہم پر مسلط ہوجائیں گے۔ تعلیم اور علم تو ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو انسانیت اور اخلاقیات سیکھاتی ہے نیکی بدی ،سچ اور جھوٹ کی تمیز بتاتی ہے، تم تو بہت ذہین تھے اور تمہارا شمار اچھے طالب علموں میں ہوتا تھا اب کیاہو گیا ہے، اپنی ذہانت کو منفی طریقوں اور غلط کاموں میں استعمال کرنے لگے ہو اپنی سوچ کو تبدیل کرو ،واپس آجاؤ تمہارے والدین کو تمہاری ضرورت ہے۔‘‘میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ میرا دماغ خراب مت کرو اپنا فلسفہ زندگی اپنے پاس رکھو، مجھے نصیحت سے بہت چڑ ہے۔ مجھے تو اپنے کسی امتحان کی فکر نہیں میرے نمبر تمہاری سوچ سے بھی بڑھ کر آئیں گے جو بزنس میں نے دوستوں کے ساتھ شروع کیا ہے، اس میں ناکامی کا لفظ شامل نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کراپنا نیا موبائل نمبر دے کر وہ چلا گیا ۔
وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ میرے والدین اور اساتذہ کی محنت اور دعائیں رنگ لائیں، آج میں ایک کامیاب ڈاکٹر ہوں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ میں وارڈ میں مریضوں کو دیکھ کر باہر لابی میں آرہا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹرز اور وارڈ بوئے ایک لاش کو پوسٹ مارٹم کےلئے لےکر جارہے تھے جب میرے قریب سے گزرے اور میری نظر لاش پر پڑی تومیں اسے پہچان گیا ، یہ میرا وہی ہم جماعتجس نے اپنا مو بائل نمبر دے کر کہا تھا، ناکامی کا لفظ میری زندگی میں نہیں۔
اسے دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ معلوم ہوا کہ اسمگلنگ کیس میں پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے ۔ یہ واقعہ سن کر دل عجیب سا بوجھل ہوگیا اور سوچنے لگا کہ ہمارے نوجوان کن ہاتھوں میں یرغمال بنے ہوئے ہیں ضد، لالچ، خودغرضی، نافرمانی، حسدنے انہیں کیا سے کیا بنا دیا ہے، ریاستی ادارے ان کی اصلاح کرنے میں ناکام ہیں۔ کون مافیا ان کی سرپرستی کررہا ہے کیوں ہم نسل نو کو ایسی دلدل میں دھکیل رہے ہیں، جس سے نکلنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
جب بھی امتحانات کا زمانہ آتا ہے ہماری ساری حکمت عملی امتحان کا پرچہ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہی دم تورد یتی ہے اور پرچے آوٹ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر سال اساتذہ، ماہرین اور دیگر تعلیمی شعبوں سے وابستہ شخصیات ان عوامل کی نشاندہی کرتی ہیں جن کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام بربادی کی طرف رواں دواں ہے لیکن چند ایک چھوٹے اسٹاف یا سو میں سے ایک کو سزا دے کر تعلیمی نظام پر احسان کردیا جاتا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا ہم نے گندی مچھلیاں نکل دی ہیں۔
گذشتہ چند دہائیوں سے محکمہ تعلیم میں ایسے لوگوں کی اکثریت نے قدم جمالیے ہیں جو خود علم سے عاری ہیں لیکن تعلیم کی سند ان کے پاس ہے، جنہیں اپنا پورا نام اور اس کے معنی تک نہیں معلوم ہمیں کھلے دل سے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ پاکستان کے75سال ہونے کے باوجود تعلیم کو کرپشن سے پاک نہیں کرسکے۔ جب تک تعلیم جیسے مقدس شعبے میں اساتذہ کا انتخاب ان کی تعلیم اور علم کی بدولت نہیں ہوگا ہمارا تعلیمی نظام ناقص رہے گا اور امتحانی نظام اس سےز یادہ ناقص اور کمزور۔ کوئی بھی قوم ترقی و خوشحالی کی حقیقی منزل اُس وقت تک نہیں حاصل کرسکتی جب تک اس میں امانت و دیانت اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط نہ پائے جاتے ہوں۔
ایسے افراد جو زندگی کو بے اصولی اور من مرضی سے گزارنے کو اہمیت دیتے ہیں، وہ ناکام رہتے ہیں، ترقی و خوشحالی و اطمینان و سکون کی منزل نہیں پاتے۔ معاشرے میں قدرومنزلت اور عزت و وقار سے محروم رہتے ہیں۔ امتحانات میں نقل تعلیم و تدریس کےنظام کوداغ دار کرتی ہے۔ ایک طالب علم اپنے اعلیٰ مستقبل کی خاطر حصول تعلیم کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔
امتحانات کے قریب تمام مضامین اور تعلیمی و تدریسی معاملات کا جائزہ لے کر امتحان کی تیاری کرتا ہے اور امتحانات کے دنوں میں پوری ذمہ داری اور امانت و دیانت کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے پوری تندہی سے امتحان دیتا اور اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے ، لیکن ہزاروں ایسے طالب علم بھی ہیں جو محنت کے بجائے نقل کرکے یا پرچی چلا کے کامیاب ہوجاتے ہیں۔
نقل وہ روگ ہے جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود، ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اورخودی کو تباہ وبرباد ، قومی ترقی کی راہ میں حائل اور نسلِ نو کے مستقبل کوداؤ پر لگا رہا ہے۔ اب نوجوانوں کے پاس سند تو ہے، لیکن وہ کسی کام کے اہل نہیں، شعور، آگہی سے نابلد، ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔
دُنیا جس برق رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، ایسے میں ہمیں تعلیم یافتہ، باشعور اور قابل، نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا تعلیمی اداروں میں طالب علم کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کرنے کے بعد انہیں علم کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ والدین سے گزارش ہے کہ ہر قدم پر بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کو پرکھیں ان کے حلقہ احباب پر بھی نظر رکھیں۔