• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساتھیو! ایک ایسی بو جسے پہچاننے میں ہمیں دوسرا سکینڈ نہیں لگتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کو یہ بو پسند ہی آئے لیکن جیسے ہی وکس کی شیشی کا ڈھکنا ہٹتا ہے آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ 129 برس قبل بنایا جانے والا یہ مرہم آج بھی اتنا ہی مقبول ہے اور پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لوگ سردی، زکام، کھانسی، سوکھے ہونٹ یا کیڑے کے کاٹے کا علاج اسی چھوٹی سی ڈبیا میں تلاش کرتے ہیں۔

آخر وکس کی خود اپنی کہانی ہے کیا؟ یہ کہاں سے آئی اور اتنی ہر دل عزیز کیسے بن گئی؟ ہم آپ کو بتاتے ہیں ہوا کچھ یوں کہ 19ویں صدی کے آخر میں ایک امریکی فارماسسٹ اور موجد لنسفرڈ رچرڈسن کو ایک اچھوتا خیال آیا۔ 1880 میں وہ اپنے بہنوئی ڈاکٹر وک کے ساتھ ان کے مطب میں کام کرتا تھا۔ ڈاکٹر مریضوں کو دیکھتے اور رچرڈسن ان کے لیے ادویات تیار کرتا تھا۔

اسی دوران انہوں نے تجربات شروع کر دیے۔ ان ہی تجربات کے نتیجے میں اس جادوئی مرہم کی تخلیق ہوئی۔ اس نئی دوائی کو استعمال کرنے والے افراد اس کے غیر معمولی اثرات سے حیران تھے۔اس دوا کا استعمال ویسے ہی ہونے لگا جیسے آج کل اینٹی فلو ادویات استعمال ہوتی ہیں۔

اسے مریض کے سینے پر ملنا ہوتا تھا تاکہ سانس لینے پر اثر سیدھے پھیپھڑوں تک پہنچے۔ وکس میں مینتھال، کافور اور یوکلپٹس کے تیل کے علاوہ چند اور مفید تیل پیٹرولیم جیلی میں گھلے ہوتے ہیں۔ 1911 میں اس بام کو ‘وکس ویپورب’ نام دیا گیا۔ اور آج بھی دنیا میں اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

1980 میں ’پروکٹر اینڈ گیمبل‘ نے اسے خرید لیا۔ آج بھی وہ ہی اس کے مالک ہیں۔ آج کی تاریخ میں وکس ویپورب دنیا کے 71 ممالک میں مختلف ٹریڈ مارکس کے ساتھ فروخت ہوتی ہے۔