پنجاب پکچرز کی نغماتی اور سبق اموز سپرہٹ فلم’’ دوستی‘‘ اتوار 7فروری عید الضحیٰ1971کو ریلیز ہوئی تھی، کراچی میں اس فلم کا مین سینما پلازہ تھا، جہاں یہ فلم مسلسل32 ہفتے اور 5دن چلتی رہی اور سولو سلور جوبلی قرار پائی، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم کو101ہفتوں کا بزنس ملا۔ یہ پاکستان کی دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم کے اعزاز سے ہم کنار ہوئی۔ لاہور میں اس فلم کا میں سینما نغمہ تھا۔
یہ بڑی عید میں نمائش ہونے والی پہلی اردو کلر فلم تھی، جس کے فلم ساز اداکار اعجاز، ہدایت کار شریف نیر، موسیقار اے حمید، مصنف علی سفیان آفاقی، عکاس ایم فاضل، تدوین کار ارشاد درانی تھے۔ ’’ ہیر رانجھا ‘‘ جیسی کلاسیکل، تاریخ ساز پنجابی فلم کی ملک گیر کام یابی کے بعد اداکار اعجاز نے فلم ’’دوستی‘‘ کا آغاز کیا۔ پہلے اس فلم کے لیے ہدایت کار جمیل اختر کانام تجویز کیا گیا، جو فائنل نہ ہوسکا۔ اور یہ فلم سینئر ہدایت کار شریف نیر کو مل گئی، جس کے کریڈٹ پر معصوم، عشق پر زور نہیں، لاڈو، نائلہ، اور ناز جیسی اعلی معیار کی یادگار اور سپرہٹ فلمیں تھیں۔
فلم کی کہانی اور اسکرپٹ علی سفیان آفاقی نے تحریر کیا، اس فلم کی کہانی دو دوستوں اعجاز اور رحمان کے گرد گُھموتی ہے، جو ایک ہی لڑکی ’’شبنم‘‘ کو چاہتے تھے۔ اعجاز اور رحمان کی دوستی ایسی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کی قربانی دینے کوتیار تھے۔ اس رومانی نقطے کے علاوہ اس کہانی میں ان پاکستانی کے لیے ایک بہت بڑا سبق تھا، جو یورپ میں جاکر وہاں کے ماحول میں گُھل مل کراپنی مشرقی تہذیب اور روایتوں کو بُھلا دیتے ہیں۔
خصوصاً ان لوگوں کے لیے یہ کہانی ایک آئینہ تھی، جو مغرب میں جاکر کسی انگریز عورت سے شادی کرلیتے ہیں، پھر مغرب اور مشرق کے ملاپ سے پیدا ہونے والے بچے جب جوان ہوتیے ہیں، مشرقی معاشرے کے لیے ایک سوال بن کررہ جاتے ہیں۔ آغا طالش نے ایک ایسے ہی باپ کا کردار ادا کیا، جو یورپ آکر ایک انگریز عورت سے شادی کرتا ہے اور پھر اس سے ایک لڑکی حُسنہ پیدا ہوتی ہے، جو یورپ کی آزاد فضاؤں اور ماحول میں پل کرجوان ہوتی ہے، تو اپنے باپ کے لیے ایک لمحہ فکر بن جاتی ہے۔ بیٹی کی آزاد خیالی دیکھ کر باپ کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوتا ہے ، جواس نے ایک انگریز عورت سے شادی کرکے کی تھی۔
یہ کہانی اس سیدھے سادھے دیہاتی پاکستانیوں کی ہے، جو یورپ کو جنت سمجھتے ہیں اور وہاں جانے کے لیے اپنا سب کچھ داو پر لگا دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یورپ میں دولت ان کے قدم چومے گی۔ راجو(اعجاز) بھی آزاد کشمیر کے ایک خُوب صورت گاؤں کا رہنے والا کسان تھا، جس نے اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے یورپ کا رُخ کیا۔ اس کے جگری دوست رحیمو (رحمان) نے اسے یورپ پہچانے میں اپنا سب کچھ بیچ ڈالا ، تاکہ اس کا غریب وست یورپ جاکر ایک خوش حال زندگی گزار سکے۔
یہ یورپ کے آزاد ماحول میں پل کر جوان ہونے والے ان ہزاروں پاکستانی بچوں کی کہانی کا المیہ ہے، جنہیں یورپی غیر ملکی سمجھ کر حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پاکستانی مغربی آزاد خیال، اور اخلاق یافتہ سمجھ کرنفرت کرتے ہیں ۔ یہ ان نوجوان بچوں اور بچیوں کی کہانی ہے ، جو اپنے والدین کی غلطیوں کی سزا بھگتے ہیں ، جن کی نہ کوئی تہذیب ہوتی ہے، نہ کوئی معاشرہ اور نہ ہی کوئی وطن ہوتا ہے۔
یہ کہانی ہے، ان بے ضمیروں کو جو یورپ میں، اپنے ہی ہم وطنوں کو جھانسہ دے کر ان کا سب کچھ لُوٹ کر انہیں بے آسرا اور بے سہارا کردیتے ہیں۔ فلم میں اداکار ساقی نے ایک ایسے ہی بے ضمیر پاکستانی کا کردار کیا، جو لندن میں سیدھے سادھے پاکستانیوں کو بے وقوف بناکر سب کچھ لُوٹ لیتا ہے۔ یہ کہانی ہے، ان مشرقی اور حیا میں لپٹی ہوئیں ان پاکیزہ شہزادیوں کی، جن کے محبوب، مغرب میں جاکر بس جاتے ہیں، یہ خُوب صورت پہاڑی دوشزائیں، اپنے محبوب کے انتظار میں حسین پہاڑوں سے یوں ہم کلام ہوتی ہیں۔’’یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں پوچھتی ہیں کب بنے گی تو دلہن ‘‘۔
فلم کی کہانی کے خلاصے کے بعد بات کرتے ہیں فلم کی کاسٹ کی، اس فلم میں شبنم نے ایک پہاڑی دوشیزہ رانی کا یادگار کردار ادا کیا، جو گائوں کے ایک خوبرو کسان راجو (اعجاز) کی منگیتر ہے۔ اعجاز کی والدہ تانی بیگم اپنے بیٹے کے سر پر سہرے دیکھنے کی متمنی ہے، مگر راجو کی بے کاری آڑے آجاتی ہے۔ رانی کا والد (پنڈت سنگھ) راجو کی بے کاری کو دیکھ کر اسے دوست رحیمو (رحمان) سے رانی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔
رحمن جو گائوں کا ایک تعلیم یافتہ شخص ہے۔ اسی گاؤں میں ایک خیردین نام کا مسخرہ بھی رہتا ہے، جو لندن سے ریٹرن ہو کر آیا، تو پُورے گائوں میں وہ یورپ کے قصے سنانے میں مشہور ہوگیا۔ یہ مزاحیہ کردار ادا کار رنگیلا نے نہایت عمدگی سے ادا کیا تھا۔ وراسٹائل اداکار حسینہ کے مغربی لڑکی بے بی، آغا طالش نے حسینہ کے باپ لندن میں مقیم ایک سیٹھ ملک اللہ بخش کاکردار نہایت زبردست انداز میں کیا تھا۔ یُوں تمام فن کاروں نے اپنے اپنے کرداروں میں بہت اعلیٰ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا ۔ 1971ء میں اس فلم کو مجموعی طور پر آٹھ نگار ایوارڈ ملے تھے۔
شریف نیر نے اس فلم کی ہدایت کاری میں جس محنت اور تجربے کا مظاہرہ کیا، وہ فلم کے ایک ایک منظر اور فریم میں اس بات کی مکمل تائید کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے ۔اس فلم کی آئوٹ ڈور شوٹنگ کے لیے فلم کا یونٹ لندن روانہ ہوا، شریف نیر کی صاحب زادی شاہدہ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران اداکار اعجاز اور شاہدہ کی شادی کی بات طے ہوئی۔ اعجاز اور نورجہاں کے درمیان ہیررانجھا کے دوران اداکارہ فردوس کی وجہ سے جو دراڑیں پڑ گئیں تھیں، وہ مزید پختہ ہوتی گئیں اور بالآخر اعجاز نے شریف نیر کی بیٹی شاہدہ کو اپنی بیگم بنا لیا۔ وہ ایک گھریلو بیوی چاہتے تھے، جو انہیں شاہدہ کی صورت میں مل گئی۔
موسیقار اے حمید نے آٹھ گانوں کی دُھنیں مرتب کیں، جو تمام کے تمام بے حد مقبول ہوئے۔ صرف ایک گانا جو لندن کی فضاؤں مین اداکارہ حسینہ پر فلمایا گیا تھا، وہ صرف مالا بیگم کی آواز میں تھا، باقی تمام گانوں کی گائیگی ملکہ ترنم نورجہاں کی گائیکی کا اعلیٰ نمونہ بن کر آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
’’روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی‘‘ ساجن جب اپنی سجنی کودل کی دھڑکنوں کے ساتھ پکارتا تو سجنی کی آواز بھی ساتھ مل کر گاتی’’آرے آرے دل کے سہارے دل دھڑکن تجھ کو پکارے‘‘ دونوں کی دوستی اور محبت میں جب وہ لمحہ آیا کہ ساجن کو پردیس جانا پڑا، تو سجنی کے پہاڑوں اور سبزہ زاروں کو گواہ بناکر اپنے ساجن کو الوداع کرتے ہوئے کہا ’’سجنا بھول نہ جانا میرا پیار‘‘ ساجن دیس گیا۔
دوستی کے تمام گیتوں میں جہاں موسیقیت کا سحرہے، تو نورجہاں کی آواز کا جادو بھی شامل ہے اور سحر اور ترنم میں گھلے ہوئے گیتوں کے شاعر تنویر نقوی،قتیل شفائی اور کلیم عثمانی نے نغمہ نگاری کی، وہ خوشبو بکھیری ہے، جس سے موسیقی کے جہاں میں یہ نغمات ہمیشہ اپنی خوشبو بکھیرتے رہیں گے۔