• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راولپنڈی، مالی ضروریات کیلئے PBC نے 1500 سے زائد درخت کاٹ ڈالے

اسلام آباد (قاسم عباسی) راولپنڈی میں مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے PBC نے 1500 سے زائد درخت کاٹ ڈالے، سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ 26 مئی کو صورتحال کا نوٹس لیکر ڈی جی پی بی سی کو طلب کیا؛ ان کی جگہ نئے ڈائریکٹر جنرل پیش ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ ایسا صرف پشاور ہی میں نہیں ہوا بلکہ پاکستان براڈکاسٹنگ کوآپریشن (پی بی سی) نے اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے راولپنڈی میں اپنی سائٹ پر 1500 سے زائد درختوں کو بھی کاٹ ڈالا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے دوران پی بی سی نے اپنی مالی مجبوریوں کو دور کرنے کے لیے پشاور اور راولپنڈی میں واقع اپنے دفاتر سے کل 3600 درخت کاٹے اور انہیں فروخت کے لیے نیلام کیا۔ پی بی سی ملک بھر میں اپنی دیگر سائٹس میں موجود تمام درختوں کے ساتھ ایسا ہی کرنے والا ہے اور اشتہار بھی دیا تھا اور بولیاں بھی طلب کی تھیں لیکن متعلقہ محکموں کی مداخلت کے بعد یہ عمل رک گیا۔ پی بی سی نے اسلام آباد، فقیر آباد، کوئٹہ، خیرپور، لاہور، حیدرآباد، مظفرآباد، ڈی آئی خان، خضدار اور ملتان میں واقع اپنے دفاتر سے مزید درختوں کی نیلامی کے لیے اخبارات میں اشتہار دیا تھا۔ یہ تمام کارروائیاں ماحولیاتی تحفظ ایجنسی، موسمیاتی تبدیلی کی وزارت یا کسی اور متعلقہ ایجنسی سے مشاورت کے بغیر کی گئیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے دی نیوز کو بتایا کہ وہ اس معاملے کو زیر غور لائے اور 26 مئی کو صورتحال کا نوٹس لیا اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پی بی سی کو طلب کر کے معاملے کے بارے میں دریافت کیا۔ تاہم پی بی سی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل، جنہوں نے ان درختوں کو کاٹنے کی منظوری دی تھی، یکم جون 2022 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کی جگہ نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر جنرل پیش ہوئے۔ صدیقی نے انکشاف کیا کہ اس اجلاس میں پی بی سی کو اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا اور انہیں ایک ہفتے کا وقت دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ بتائیں کہ کیا انہوں نے اپنی جگہوں سے درختوں کی ان بڑی تعداد کو کاٹنے سے پہلے ماحولیاتی ایجنسیوں سے مشورہ کیا تھا۔مزید یہ کہ ان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اس طرح کے غیر قانونی کام کرنے کے احکامات کس نے دیئے اور کیا وجوہات ہیں؟ تاہم معلوم ہوا ہے کہ پی بی سی نے ابھی تک کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔ پنڈی برانچ پی بی سی میں نیلام ہونے والے درختوں کا کل رقبہ 20 کنال تھا۔ یہ درخت جو صرف سات لاکھ روپے میں فروخت کئے گئے ان کی مالیت کہیں زیادہ تھی۔ پی بی سی راولپنڈی برانچ کی ریڈیو اسٹیشن ڈائریکٹر مس عاصمہ گل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایسے فیصلے ہیڈ کوارٹر اور اعلیٰ حکام لیتے ہیں اور وہ پہلے ہی متعلقہ محکموں کو درختوں کی کٹائی سے متعلق اپنی کارروائی کی وضاحت کر چکے ہیں۔ دی نیوز نے وزارت اطلاعات و نشریات کے جوائنٹ سیکرٹری ارشد منیر سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس معاملے پر ان کا موقف لینے میں ناکام رہا۔ اس حوالے سے جب وفاقی سیکرٹری اطلاعات وزارت نشریات مسز شاہرہ شاہد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے اور ای پی اے جیسی متعلقہ ایجنسیاں بھی اس معاملے میں شامل ہو گئی ہیں۔ شاہرہ شاہد نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درختوں کی کٹائی صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب بعد میں مزید درخت لگائے جائیں، مثال کے طور پر ایک درخت کاٹنے پر 30 درخت لگائے جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ پی بی سی نے ان جگہوں پر درخت لگائے ہیں جہاں سے وہ پہلے درختوں کو ہٹا کر فروخت کے لیے نیلام کر چکے ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق راولپنڈی میں پی بی سی کی جانب سے ان درختوں کی نیلامی پر 02-09-2021 کو منعقدہ ایک اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا جس میں پی بی سی کے اپنے ذرائع سے آمدنی حاصل کرنے کے مختلف اختیارات کا جائزہ لیا گیا۔ ان کی نیلامی کو بجٹ کی کمی کو پورا کرنے کے راستے کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔
اہم خبریں سے مزید