بلوچستان میں طویل عرصے کے بعد 29 مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے حتمی سرکاری نتائج کا تاحال اعلان نہ ہوسکا، صوبے کے 32 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں غیرسرکاری و غیرحتمی نتائج کے مطابق ابتدائی طور پر آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کے میدان میں ہونے کے باوجود آزاد امیدواروں نے حیرت انگیز طور پر بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی تھی ، دوسری جانب الیکشن کمیشن نے صوبے کے دو اضلاع کوئٹہ اور لسبیلہ میں جہاں پہلے مرحلے میں انتخابات نہ ہوسکے تھے وہاں جولائی کے دوسرے ہفتہ میں انتخابات کرانے کا عندیہ دیا ہے۔
یاد رہے کہ دونوں اضلاع میں حلقہ بندیاں ازسر نو کیے جانے کے باعث بلدیاتی انتخابات نہ ہوسکے تھے تاہم صوبے کے 32 اضلاع میں ہونے والےبلدیاتی انتخابات کے ابتدائی طور پر سامنے آنے والے غیرسرکاری و غیرحتمی نتائج سیاسی جماعتوں سمیت عوام کے لئے بھی حیران کن تھے ، صوبے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت جمعیت علما اسلام اور آزاد امیداروں کی تعداد میں سینکڑوں نشستوں کا فرق تھا ، حالیہ انتخابات کے نتائج آزاد امیدواروں کی کامیابی کے حوالے سے حیران کن تھے وہاں یہ انتخابات ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے کامیابیاں لے کر آیا، 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی نے اس کے بعد بلوچستان میں انتہائی مشکل دن دیکھے نہ صرف 2013 اور 2018 کے عام انتخابات بلکہ اس دوران ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی پیپلز پارٹی کے لئے ڈراونا خواب ہی ثابت ہوئے ، حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے بعد قریب 15 سال بعد پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے سکھ کا سانس لیا جبکہ پارٹی کی قیادت کی جانب سے بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کی پارٹی میں شمولیت کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) جو صوبے میں بار بار حکمران جماعت رہی ہے بہت بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکی ، سنجیدہ سیاسی حلقے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آوٹ اور خاص طور پر انتخابی نتائج کو آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دئے رہے ہیں، دوسری جانب بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں منتخب بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخاب کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطوں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے ، اس سلسلے میں گزشتہ دنوں جمعیت علما اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے درمیان بلدیاتی ادروں کے انتخابات کے دوسرئے مرحلے کے حوالے سے باقاعدہ اتحاد کا اعلان ہوگیا۔
یاد رہے کہ جمعیت علما اسلام جو ابتدائی طور پر بلدیاتی انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری جسے جہاں صوبے کے مختلف علاقوں سے عوام کا مینڈیٹ ملا ہے وہاں صوبے کے پشتوں اضلاع میں پارٹی نے نمایاں کامیابی حاصل کی جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا پشتون اضلاع میں نہ صرف ووٹ بینک ہے بلکہ حالیہ انتخابات میں بھی پارٹی بڑی تعداد مین نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ، دونوں جماعتوں کے بلدیاتی انتخابات میں اتحاد و تعاون سے دونوں جماعتوں خاص طور پر پشتونخوا میپ کو زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ ماضی قریب تک جمعیت علما اسلام اور پشتونخوامیپ سیاسی خاص طور پر انتخابی سیاست کے حوالے سے ایک دوسرئے کے انتہائی سخت حریف رہے ہیں اور دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابل ہوتا تھا ، جیسا کہ اس پہلے اس بات کا زکر ہوچکا کہ بلوچستان میں 29 مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات جن کے سرکاری و حتمی نتائج کا 3 مئی کو اعلان کیا جانا تھا لیکن تاحال نتائج کا اعلان نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے اب تک پارٹی پوزیشن واضح نہیں جبکہ دوسری جانب آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی موجودگی میں ایک تقریب میں صوبے کے مختلف اضلاع سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے 200 کونسلروں نے بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا ، جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی دوسرئے مرحلے کے انتخابات سے قبل مزید آزاد کونسلروں کی اپنی اپنی جماعتوں میں شمولیت کا دعویٰ کررہی ہیں، اس حوالے سے صورتحال چند دنوں میں مزید واضح ہوجائے گی ، بلوچستان میں بلدیاتی ادارئے چند ایک ادوار کے سوا ماضی میں فنڈز کی کمی اور اختیارات نہ ہونے کے باعث فعال کردار ادا اور عوام کو سہولیات کی فراہمی میں کامیاب دکھائی نہیں دیئے۔
اس حوالے سے اکثر بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندئے اس کا گلہ بھی کرتے رہے بلکہ سابق دور میں تو بلدیاتی اداروں کے سربراہاں و کونسلر احتجاج بھی کرتے دکھائی دیئے ، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے 200 کونسلروں کی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہونے کے موقع پر اعلان کیا آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لوکل کونسلز کیلئے 10ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جبکہ تنخواہوں اور غیر ترقیاتی مد میں ساڑھے6 ارب روپے مختص کئے جائیں گے۔
تاہم اسی تقریب میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے سابق حکومت کو جہاں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گذشتہ حکومت کی غیر حقیقی بنیادوں پر بنائی گئی پی ایس ڈی پی کو ان کی حکومت نے قابل عمل بنایا اور سابق حکومت نے بجٹ میں صوبے کے محاصل کے غیر حقیقی اعدادوشمار پیش کئے۔