• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنوبی پنجاب بجٹ میں ایک بار پھر نظر انداز

جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے ، ملتان کا صوبائی حلقہ 217کا ضمنی انتخاب سیاسی حوالے سے ایک بڑا انتخابی معرکہ بنتا جارہا ہے، شاہ محمودقریشی اپنے بیٹے زین قریشی کے لئے یہ انتخاب ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں ،کیونکہ عام انتخابات میں وہ اس نشست سے ہار گئے تھے اور جو شخص ان سے جیتا تھا ،وہ اب مسلم لیگ ن کی طرف سے ان کے بیٹے زین قریشی کا مقابلہ کررہا ہے، کاغذات نامزدگی کے وقت بھی ماحول میں خاصی گرماگرمی دیکھنے میں آئی۔

شاہ محمود قریشی ،سلمان نعیم جو مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں ،کے خلاف اعتراضات داخل کرنا چاہتے تھے ،مگران کے مطابق ریٹرنگ آفیسر نے انہیں اجازت نہیں دی اور کہا کہ سلمان نعیم کے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے ہیں ، جس پر شاہ محمود قریشی غصہ میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ وقت ختم ہونے سے پہلے کاغذات نامزدگی کیسے منظور کئے جاسکتے ہیں اور ہمارا اعتراض سنے بغیر اسے کیسے مسترد کیا جاسکتا ہے ،اس موقع پر خاصی تلخ کلامی دیکھنے میں آئی ،جس کے بعد ریٹرنگ آفیسر نے سلمان نعیم کے کاغذات نامزدگی کے خلاف اعتراضات کی درخواست وصول کرلی۔

یاد رہے کہ جب سلمان نعیم شاہ محمود قریشی کے فرنٹ لائن سپورٹرتھے ،لیکن جب شاہ محمود قریشی نے انہیں ایم پی اے کا ٹکٹ نہیں دیا اور خود اس حلقہ سے امیدوار بن گئے ،تو پی ٹی آئی میں ان کے مخالف جہانگیر گروپ ترین کے مبینہ ایماء پر سلمان نعیم نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا اور ایم پی اے منتخب ہوگئے، اس کے بعد انہوں نےجہانگیر ترین کی وساطت سے دوبارہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی ،لیکن شاہ محمود قریشی کے ایماء پر ان کے خلاف انتخابی عذرداری داخل کی گئی اور دوشناختی کارڈ رکھنے کے الزام میں انہیں الیکشن ٹریبونل نے ڈی سیٹ کردیا۔

جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور اڑھائی سال صوبائی اسمبلی کی نشست سے معطل رہنے کے بعد عدالت عظمیٰ کے حکم پر انہیں بحال کردیا گیا ،اب ایک بار پھر شاہ محمود قریشی نے سلمان نعیم کے خلاف انہیں الزامات کی بنیاد پر اعتراضات داخل کئے ہیں ، حالانکہ ان کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے اور سلمان نعیم ایم پی اے کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی میں اپنا کردار اداکرتے رہے ہیں ،جب حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے لئے ووٹنگ کا مرحلہ آیا ،تو سلمان نعیم جو جہانگیر ترین گروپ کے ایک سرگرم رکن بن چکے تھے ،انہوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا، جس کے بعد انہیں الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے نااہلی ریفرنس میں ڈی سیٹ کردیا گیا۔

یہ سیٹ خالی ہونے پر اب اس پر ضمنی انتخاب ہورہا ہے اور اس بار یہی سلمان نعیم آزاد امیدوار کی بجائے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر اس حلقہ سے انتخاب لڑرہے ہیں ،جبکہ ان کے مقابل شاہ محمود قریشی نے اپنے بیٹے زین قریشی کو اتارا ہے ،جو اس سے پہلے قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور اب بھی ان کا استعفیٰ اسپیکرقومی اسمبلی نے منظور نہیں کیا ،شاہ محمود قریشی نے سلمان نعیم کے خلاف اپنے بھرپور جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ میں پہلے ہی سلمان نعیم کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے خلاف تھا ،کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ وفادار نہیں ہے ،لیکن اس وقت عمران خان نے میر ی اس بات پر توجہ نہیں دی ،مگر آج وہ اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ سلمان نعیم ، جہانگیرترین ،علیم خان سمیت بہت سے منحرف ہونے والے پارٹی سے وفادار ثابت نہیں ہوئے۔ 

شاہ محمود قریشی نے یہ الزام بھی لگایا کہ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے سلمان نعیم کو ایک ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ دیا ،مگر اس کے باوجو د انہوں نے پارٹی سے وفا نہیں کی اور اب یہ مسلم لیگ ن کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو دھوکہ دینے کے لئے پھر آگیا ہے ،ادھر سلمان نعیم بھی علی الاعلان یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کل میں نے باپ کو شکست دی تھی اور اس بار بیٹے کو شکست دوں گا۔ شاہ محمود قریشی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ پوری پنجاب حکومت اس حلقہ میں پی ٹی آئی کو شکست دینے کےلئے سرگرم ہے ،کیونکہ حمزہ شہباز یہ نہیں چاہتے کہ زین قریشی منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچے اور اس مقصد کے لئے سلمان نعیم کوترقیاتی فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں اور خلاف ضابطہ اس حلقہ میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں ،جو الیکشن قوانین کی صریحاًخلاف ورزی ہے۔

اس حوالے سے وہ متعدد بار اعتراضات کرچکے ہیں ،مگر اس وقت الیکشن کمیشن ایک متعصب اور غیر جانبدار ادارے کا کردار ادا کررہا ہے ،اس کی یہ کوشش ہے کہ ان 20 انتخابی حلقوں میں جہاں منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے پر ضمنی انتخاب ہورہےہیں ، پی ٹی آئی کو ہرایا جائے ،اس مقصد کے لئے خاص افسروں کے تبادلے کئے جارہے ہیں ،من پسند الیکشن عملہ لگایا جارہاہے، انتخابی عملہ کی سلیکشن بھی اسی پیمانے کو سامنے رکھ کر کی جارہی ہے، ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یہ ضمنی انتخابات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آنے والے قومی انتخابات شفاف ہوں گے کہ نہیں ، اگر یہ انتخاب دھاندلی زدہ ہوتے ہیں ،تو اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن یہ تہیہ کر چکا ہے کہ تحریک انصاف کو کسی صورت آگے نہیں آنے دینا ، لیکن میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر الیکشن کمیشن نے جانبداری کا مظاہرہ کیا اور پولنگ کے دن انتخابات شفاف اور غیرجانبدارانہ نہ ہوئے تو اس کا بہت شدید ردعمل سامنے آئے گا۔

شاہ محمود قریشی کے یہ اعتراضات درست ہیں کہ اس حلقہ میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں او رسلمان نعیم کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا جارہا ہے کہ یہ کام ان کی کاوشوں کے نتیجہ میں ہورہے ہیں، ان کاموں کو الیکشن تک رکوانے کے لئے پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ،اس کے باوجود جس قسم کا بجٹ سامنے آیا ہے اور مہنگائی کے جس عذاب نے ہر آدمی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

دوسری طرف سلمان نعیم کی وفاداری تبدیل کرنے کی وجہ سے جو ووٹرز کا اعتماد مجروح ہوا ہے ،اس کے پیش نظر تحریک انصاف کے حامیوں کو یقین ہے کہ حلقہ 217کے ضمنی انتخاب میں اس بار سلمان نعیم کو شکست ہوگی اور زین قریشی ایک بڑے مارجن سے کامیاب رہیں گے۔ وفاقی بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے کوئی بڑی ترقیاتی سکیم نہیں رکھی گئی ،نہ ہی کسی میگا پراجیکٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

جس پر سرائیکی تنظیموں کے عہدے داروں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک بار پھر ن لیگ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اپرپنجاب کی جماعت ہے اور اسے جنوبی پنجاب کی عوام سے کوئی غرض نہیں ہے، ادھر پنجاب کے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کی مد میں پچھلی حکومت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے جنوبی پنجاب کےلئے 35 فی صد بجٹ مختص کیا ہے ،لیکن یہاں کے سیاستدانوں اور قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی حکومت میں ہمیشہ فنڈز تو مختص کردیئے جاتے ہیں ،لیکن انہیں خرچ کرنے کی نوبت نہیں آتی ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید