• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بلدیاتی حلقہ بندی دوبارہ کروائی جائے: ایم کیو ایم کا مطالبہ

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے سیاسی گہماگہمی عروج پرہے۔ بلدیاتی انتخابات دومرحلوں میں ہوں گے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے لیے پولنگ26 جون کو ہوگی جبکہ پہلے مرحلے میں پانچ مختلف کیٹیگریز کی (7164)بلدیاتی نشستوں میں سے ایک ہزار 81نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب قرار پائے ہیں۔ اب پہلے مرحلے میں 6083 نشستوں پر مقابلہ ہوگا بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں نصف تعداد پی پی پی کے امیدواروں کی ہے پہلے مرحلے کے انتخاب پر سوا ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہوچکی ہے یوسی چیئرمین اور وائس چیئرمین کی 1774 نشستوں میں سے 270 پر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ 

اب 1504 نشستوں پر مقابلہ ہوگا۔ ضلع کونسلز کی 794 نشستوں میں سے 107 پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں، جبکہ 687 پر مقابلہ ہوگا۔ یوسی وارڈ کونسلر کی 3548نشستوں میں سے 622پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔ 2926نشستوں پر مقابلہ ہوگا۔ ٹاؤن کمیٹی وارڈز کونسلر کی 694 نشستوں میں سے 68 پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ 626 پر مقابلہ ہوگا۔ 

میونسپل کمیٹی کے وارڈز کونسلرز کی 354نشستوں میں سے 14 پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں 340 پر مقابلہ ہوگا۔ بلامقابلہ کامیاب ہونے والوں میں سے 500سےزائد امیدواروں کا تعلق پیپلزپارٹی سے، 53 کا تعلق جے یو آئی (ف) سے، 49کا تعلق گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے ہے، جبکہ 300آزاد امیدوار ہیں۔ جبکہ دوسرے مرحلےکے انتخاب کے لیے تادم تحریرکاغذات نامزدگی کے وصولی کے چھٹے روز تک سات ہزار سے زائدنامزدگی فارم وصول کئے جاچکے ہیں۔ 

دوسرے مرحلے کے انتخاب کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ہوں گے کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین ، وائس چیئرمین اور 984 وارڈزکونسلرکے لیے پی پی پی ، ایم کیو ایم، مہاجرقومی موومنٹ، تحریک لبیک، پاک سرزمین پارٹی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، جے یو آئی، جے یو پی، مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ فنکشنل، قوم پرست جماعتوں ، سندھ یونائیٹڈپارٹی، پاکستان عوامی تحریک، جئے سندھ قومی محاذ، جسقم، سنی تحریک اور دیگر جماعتوں کے امیدوار آمنے سامنے ہوں گے 15 جون کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے 28 جون تک بلامقابلہ کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد سامنے آجائے گی دوسرے مرحلے کی پولنگ 24 جولائی کو ہوگی تاہم دوسرے مرحلے کے انتخاب کی حلقہ بندیوں اور ان حلقوں کے ووٹرز پر ایم کیو ایم کے تحفظات ہے جبکہ بلدیاتی قوانین میں تبدیلی نا ہونے پر بھی ایم کیو ایم متعرض ہے پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس ضمن میں معاہدہ ہوا تھا جس پر تادم تحریر عمل نہیں ہوسکا۔ 

اس ضمن میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کی قیادت کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے اور دعویٰ کیا گیا کہ دوملاقاتوں کے بعد کئی معاملات میں پیش رفت ہوئی ہیں تاہم کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ، میئرکے اختیارات پر دونوں فریقین کے درمیان تعطل موجود ہے یہ طے پایا گیا ہے کہ تعطل والے ایشوز پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی کے سامنے رکھے جائیں گے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نےسپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلدیاتی ترامیم پر زور دیا اور کہاہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر من وعن عمل چاہتے ہیں۔ جلد از جلد بلدیاتی ڈارفٹ کو قانونی شکل دی جائے، تاخیر سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ 

ذرائع کاکہنا ہے کہ بلدیاتی قانون میں تبدیلی کرکے سوک ادارے، اتھارٹیز، محکمے میئر یا ڈسٹرکٹ چیئرمینز کے حوالے سے کئی اصلاحات پر غور کیا گیا اور ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ بلدیاتی ریونیو کے ادارے میئر کے ماتحت کئے جائیں۔ ملاقات میں کے ڈی اے کےحوالے سے معاملات پر شق وارجائزہ لیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی حلقہ بندی ازسرنو کرانے پر زور دیا ہے اور یونین کونسلوں اور کراچی کی یونین کمیٹیوں کی آبادی میں 100 فیصد سے زائد فرق پر سوال اٹھایا ہے۔ 

اسی طرح حیدرآباد کی حلقہ بندی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ دونوں نے جلد قانون سازی اور شق وار آگے بڑھنے پر اتفاق کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہماری توجہ عہدوں پر نہیں قانون سازی پر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کو بھی ملاقات متوقع ہے۔ اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت کوعوام نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اہم پیش رفت کے طور پر سندھ ہائیکورٹ میں نئی قانون سازی تک بلدیاتی انتخابات کے التوا کے حوالے سے سندھ اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی اجلاس کی رپورٹ اور سفارشی قرار داد پیش کی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ صوبے میں پہلے مرحلے کے انتخابات24 جولائی کو بروقت ہوں، تاہم دوسرے مرحلے کے انتخابات التوا کاشکار ہوسکتے ہیں، اس ضمن میں سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ اہم ہے۔موجودہ بلدیاتی انتخابات طویل عرصے بعد منعقد ہورہے ہیں یہ انتخاب تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اہم ہیں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب میں پی ٹی آئی ، جی ڈی اے کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان ہے جبکہ کئی اضلاع بشمول لاڑکانہ میں پی پی پی مخالف اتحاد جے یو آئی پی پی پی کو ٹف ٹائم دیں گے ان انتخابات میں کراچی، حیدرآباد ، سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، میرپورخاص ، بدین، سانگھڑ کے معرکوں پر خصوصی نظریں ہیں، ایم کیو ایم کے علاوہ اب کوئی سیاسی جماعت حلقہ بندیوں اور بلدیاتی قوانین میں ترمیم کے لیے آواز نہیں اٹھارہی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید