محمد منور سعید
ابو سی سی یو ( CCU)کے وارڈ میں نیم بے ہوشی کے عالم میں لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ میں ان کے کانپتے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا چھوٹ جانے کا اندیشہ اور انجانا سا خوف جو دل میں پنہاں تھا۔ میں دیر تک ابو کے نحیف و نزار ہاتھ کو محویت سے تک رہا تھا، آنسو تھے کہ خود بہ خود آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر بستر کی سفید چادر کو بھگو رہے تھے۔
میں نے اپنے سر کو دھیرے سے ابو کے ہاتھ پر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ آنکھوں کا بند کرنا تھا کہ دل کی آنکھیں روشن ہونے لگیں۔ ابو جان کے ہاتھ یوں محسوس ہورہے تھے جیسے یہ میرے ہی ہاتھ ہوں۔ ان کے جسم میں دوڑتا خون اور اس خون کےخلیے ( CELLS )صاف نظر آنے لگے میں انہیں بخوبی پہچان گیا یہ تو ہوبہو وہی ہیں جو کہ میرے خون میں ہیں۔ میری رگوں میں بھی تو یہی خون دوڑ رہا ہے۔
انہی خلیوں ہی سے تو میری تخلیق ہوئی تھی۔ اچانک مجھے اپنا آپ دو، چار ماہ کے بچّے کی طر ح لگنے لگا جو پلنگ پر ہلکورے لے رہا ہو، کسی کی گود میں آنے کے لیے مچل رہا ہو۔ یکایک کمرے میں کالے سیاہ بالوں والے پتلے دبلے نوجوان ابو نے مجھے اپنی گود میں اٹھالیا اور پھر مجھے لوریاں سنانے لگے اپنے سینے پہ مجھ کو سلانے لگے۔ اپنے بچپن میں شاید ایک ہی بار میں نے ضد کی تھی، چھ سات سال کا تھا کہ مجھے بائی سائیکل چاہیےتھی۔
امی سے فرمائش کرتا وہ کہتیں کہ آپ کے ابو سے کہا ہے وہ لے کر آئیں گے۔ کئی روز گزر گئے، مگر سائیکل نہ آئی۔ میں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دے دی، اسی سہہ پہر جب ابو دفتر سے آئے تو میں نے منہ بسورے دروازہ کھولا باہر ٹیکسی کی چھت پر ایک سائیکل دیکھ کر خوشی سے سرشار ہوگیا۔ ابو کھڑے مسکرارہے تھے۔ ایک خوبصورت نئی سائیکل، جس پر six million dollar Man کا اسٹیکر لگا تھا۔
یہ ایک انمول تحفہ تھا جو آج بھی مجھے یاد ہے ۔چند روز اس ضد پر مجھے کچھ خفت سی ہوتی رہی۔ ابو گورنمنٹ سرونٹ تھے۔ گورنمنٹ سرونٹ کو ایک محدود تنخواہ میں گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مہینے کی شروع تاریخوں میں ہی کھل کر اخراجات ہوتے ہیں آخری تاریخیں تو گن گن کر گزارنی ہوتی ہیں۔ میں اس کم عمری میں ان مالی مسائل سے بے نیاز تھا، مگر جب بڑا ہوا تو اپنی انجانی خفت کی وجہ سمجھ آنے لگی۔
میرے بچپن کے وہ سنہرے دن خواب جیسے تھے وہ خواب ہوگئے۔ ہمارے ابو ڈپٹی ڈائریکٹر رتھے ۔وہ انتہائی دلکش شخصیت کے ساتھ ساتھ انتہائی محنتی اور بے لوث انسان تھے۔ سرکاری ملازمت کو جس تندہی اور جانفشانی سے انہوں نے پورا کیا۔ اس کی نظیر کم کم ہی شنید ہے۔ امی اور ابو کی ذہنی ہم آہنگی بہت خوب تھی۔ ابو غصے کے ذرا تیز تھے، مگر امی ان کی بات بغیر کہے سمجھ جاتی تھیں۔ دونوں مارننگ ٹی کے بہت شوقین تھے۔ یہی وہ وقت ہوتا کہ جب یہ دونوں باہمی دلچسپی کے معاملات طے کرتے۔گھریلو بجٹ، رشتہ داریاں نبھانا، بچوں کے معاملات اسی چائے کے دوران ڈسکس ہوتے۔
ابو سہہ پہر دفتر سے گھر آکر سوجاتے۔ شام کو ہمارا ہوم ورک کرواتے اور پھر چچا کی دکان پر چلے جاتے۔ اس غیر منصبی فرض کو پوری تندہی سے فریضہ سمجھ کر ادا کرتے۔ ابو جہاں پیار کرتے تھے وہیں گرجتے برستے بھی خوب تھے۔ ہمیں بچپن میں جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا، مگر ابو ان کے خلاف تھے، وہ انہیں وقت کا زیاں سمجھتے تھے۔ ہم تینوں بھائی ابو سے بہت ڈرتے تھے۔ جیسے ہی ابو کی آمد ہوتی، دروازے کی گھنٹی بجتی ہم ناول پلنگ کے نیچے چھپا دیتے یا خود بھی چھپ جاتے۔
آج جب ابو کی جھکتی کمر اور نحیف آواز کو دیکھتا سنتا ہوں تو ان کا رعب دار چہرہ اور کڑک آواز جس کو سن کر ہم بھائی کانپ جاتے تھے، نظروں میں گھوم جاتی ہے وقت کا یہ مدوجزر جذبات میں تلاطم پیدا کردیا ہے۔ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، کاش کہ ابو ہمیشہ ویسے ہی جوان رہتے ۔ وقت بڑا سفاک ہوتا ہے۔ یہ خاموشی سے اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ مائیں ہمیشہ بچّوں کےدلوں میں باپ کا رعب بٹھا کر رکھتی ہیں اور وہ بیچارے اس بھرم کو قائم رکھنے کے لیے ساری زندگی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرپاتے۔
اولاد ماں سے تو بے تکلف ہوتی ہے، مگر باپ سے محبت کے باوجود ایک فاصلہ رہتا ہے، حالاں کہ بچہ باپ کی ہی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتا ہے، اُنہیں اسکول لے جاتے، شاپنگ کرواتے ۔ نماز کے لیےمسجد لے جاتے ہیں۔ اتنی قربتوں کے باوجود آہستہ آہستہ کچھ فاصلے ختم ہوجاتے ہیں۔ باپ بیٹے کا ساتھ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کی لہروں اور ساحل کا ابو صرف ظاہری طور پر سخت دکھائی دیتے تھے، مگر اندر سے وہ امی سے بھی زیادہ نرم اور حساس تھے، مگر ہمارے سامنے کبھی تذکرہ بھی نہیں کرتے تھے ۔نہ جانے کہاں چھپاتے تھے اپنے غم بہت ڈھونڈے مگر نہ ملے۔ اس کااندازہ تب ہوا جب بھائی جان کو ابو نے پڑھنے کے لیے امریکا بھیجا۔سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے محدود وسائل کے باوجود انہوں نے اولاد کے بہتر مستقبل کے لیےیہ فیصلہ کیا۔
اس مشکل ٹاسک کو پورا کرنے کے لیےانہوں نے اپنے آپ کو اتنا مصروف کرلیا کہ ہماری کئی کئی روز ان سے ملاقات بھی نہ ہوپاتی، وہ صبح دفتر جاتے اور رات گئے واپس آتے۔ابو کو اسی دوران پہلی بار چھپ چھپ کر روتے ہوئے دیکھا تو بہت حیرت ہوئی کہ ابو بھی روتے ہیں ،جب کہ امی تو دن بھر آنسو بہاتی تھیں۔ میں اور ابو ساتھ ساتھ بڑے ہوتے جارہے تھے ابو دیر تک جوان رہے اور میں کچھ جلدی بڑا ہوگیا۔ ابو انا پسندی کے حصار میں رہے اور میں اپنی انا کے خمار میں۔وہ چاہتے تھے کہ ہر کام وہ خود کریں جب کہ میں چاہتا تھا کہ ان کے حصے کے کام بھی میں کروں۔
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں ابو ہی کا نیا version تھا۔ نیوٹن نے کہا تھا کہ’’ Like charges Repeals each other ‘‘۔ میں بھی تو اپنی ذات میں ابو ہی تھا۔ بہرحال جب احساس ہوا کہ محبت تو اپنی انا کو قربان کرنے کا نام ہے۔بعض جگہ ہارنے ہی میں اصل جیت پنہاں ہوتی ہے تو کافی دیر گزر ہوچکی تھی۔ اب ابو جوان نہیں بلکہ بزرگ ہوچکے ہیں۔ میری زندگی میں نشیب و فراز آئے تو ہر بار ابو ہی نے سنبھالا۔
وہ تو ایک شجر سایہ دار ہیں، ہر کڑی دھوپ میں سائبان ہیں ، ہر اندھیرے میں کہکشاں ہیں۔ وہ ہیں تو تلاطم کا ڈر کسے۔ آپ ہی کے دم سے زندگی میں بہار ہے۔ ابو کے پرنور چہرے کو دیکھوں تو نظر نہیں اٹھتی۔ وہ مسکرا تے ہیں تو لگتا ہے پورا عالم مسکرارہا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہیں تو دنیا ڈوبتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
جگمگاتے ہوئے مسکراتے ہوئے
بس دعا ہی دعا مہرباں آپ ہیں
اللہ میرے ابو کو سلامت رکھے