باپ وہ عظیم ہستی ہے جو خود کو کبھی سورج کی گرمی تو کبھی سردی کے کُہر سے ٹکرا دیتا ہے۔باپ امیر ہو یا غریب، باپ تو باپ ہے۔ وہ باپ، جو مرتے دَم تک اپنی اولاد سے بے زار و غافل ہوتا ہے، نہ اس کے لیے دُعا کرنا چھوڑتا ہے۔اپنی اولاد سے محبت کرنے والے باپ کی گھر میں گونجتی آوازبھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ ماں کی شفقت اور باپ کی ڈانٹ ڈپٹ دونوں ہی تربیت کے اہم ترین جز ہیں۔ اگر خدا نے جنت کو ماں کے قدموں تلے رکھاہے تو باپ کی دعا کو بھی اولاد کے حق میں سب سے جلد قبول ہونے والی دعا کا درجہ دیا ہے۔
باپ اپنی محنت و مشقت سے کمائی ہوئی آسائشوں اور نعمتوں سے بھی اتنا لطف اندوز نہیں ہوتا جتنا کہ اس کے بیوی بچے ! وہ تو اپنی اولاد کو خوش و خرم دیکھ کر ہی خوش ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے اس محنت کا صلہ مل گیا۔ باپ جو دن کو دن نہیں سمجھتا، راتوں کو بھی فکر معاش میں بے چین رہتاہے۔ کبھی اپنی پریشانی یا الجھن کسی کو نہیں بتاتا بلکہ خود سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہر مشکل اور دشواری کا سامنا کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے باپ کے دل میں بچوں کے لیے جو پیار و محبت کے جذبات رکھے ہیں ،اس کی وسعتوں کی پیمائش بہت مشکل ہے۔
اس کی محبت, شفقت اور سختی اولاد کے لیے ایک استاد کی حیثیت رکھتی ہے اس کی ڈانٹ میں بھی بچوں کے لیے بہت بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ کبھی غصہ میں بچے کو مار بیٹھے تو وہ چوٹ اپنے جسم پر محسوس کرتا ہے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر سردیوں میں ان کی گری رضائیاں اور کمبل سیدھے کر کے ان پر ڈالتا ہے۔ بچوں کے دوستوں پر نظر رکھتا ہے۔ زمانے بھر کی سفارشیں ڈھونڈ کر ان کی نوکری کی لئے مارا مارا پھرتا ہے۔
وہ یہ سب کیوں کرتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ باپ ہےجو اپنے بچوں کا سائبان ہوتاہے۔ اس کی مثا ل کچھ اس طرح ہے کہ ایک پھل فروش، سبزی فروش گرمی کی چلچلاتی دھوپ میں گلی گلی اپنی ریہڑی دھکیلتا اور آوازیں لگاتا نظر آتا ہے، ایک وہ جو صبح سے شام تک اپنے آفس میں بیٹھا فائلوں میں سر کھپاتا ہے اور وہ دوکاندار جو صبح سے رات گئے تک گاہکوں سے بحث و تکرار کرتا ہے۔ اس کی ساری مشقتیں صرف اس لیے ہیں کہ اولاد پڑھ لکھ کر بلند مقام حاصل کر لے۔
دن بھر کی مشقت کے بعد وہ کہیں کسی تفریح کے غرض سے نہیں جاتا سیدھا اپنے گھر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ موسم کا نیا پھل، نئی سوغات، سب سے پہلے اس کے بچوں کے منہ میں جائیں۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھ کر بچوں کو دیکھ کر اپنی تھکاوٹ بھول جاتا ہے۔ وہ کئی سال تک ایک ہی جوتوں کے جوڑے میں گزار دیتا ہے لیکن بچوں کے لیےکو ہر سال نئے جوتے، نئے کپڑے خریدتا ہے یہ باپ کا پیار نہیں تو کیا ہے، پھر بھی اسے یہ سننے کو ملتا ہے کہ’’ آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے‘‘۔
یہ وہ الفاظ ہیں جواب عام ہو چکے ہیں ۔اکثر نوجوانوں کو اپنے باپ سے شکوہ رہتا ہے کہ انہیں ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں ٫ ، نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے، کبھی اپنے باپ کا موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کچھ بنایا ہوتا تو آج ہم بھی، فلاں کی طرح عالیشان گاڑی میں گھوم رہے ہوتے۔ آج کل اولاد اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہے (گھر, گاڑی, پلاٹ, بینک بیلنس, کاروبار ) اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال دیتےہیں۔
اولاد کے ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش, آخری وقت تک باپ کو بے چین رکھتی ہے۔ کچھ باتیں جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی ، دنیا سے مقابلے کا بُھوت جوسوار ہوتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں کچھ کھو بھی رہےہوتےہیں جس کا احساس بہت دیر سےہوتا ہے , اتنی دیر سے کہ اسے چْھونے , محسوس کرنے , اس کی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج کے دَور میں باپ جیسے اَن مول رشتے کو بھی سیڑھی کی طرح استعمال کیا جاتا ہےاور ضرورت ختم ہونے پر کسی پُرانی شے کی طرح، گھر کے کسی کونے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ یہ وہی مضبوط سہارا ہے، جس نے اس کی زندگی کا پہلا قدم اُٹھانے میں مدد کی تھی۔ باپ کی کمائی اور ورثے کی تو اولاد حق دار بنتی ہے، مگر اس کے دیگر تجربات اور اصولوں سے کم ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔ حالاں کہ باپ ایک ایسی کتاب ہے جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں لیکن نئی نسل والدین سے خود کو زیادہ عقل مند خیال کرتی ہے۔
باپ دنیا کے تھپیڑوں سے گزر کراپنی اولاد کو اُونچ، نیچ سمجھاتا ہے لیکن آج کی نسل کویہ برا لگتا ہے، وہ اسے اپنی آزادی میں خلل سمجھتی ہے۔ کتنے بدقسمت ہیں وہ نوجوان جو باپ جیسی عظیم نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ اپنی ذات کے حصار میں قید اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ والد کی قدراس دن معلوم ہوتی ہے جب خود عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ اپنے حق کے لئے پوری دنیا سے تنہا کیسے لڑا جاتا ہے ؟لیکن افسوس اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
نوجوان ساتھیو! یاد رکھیں آپ کے باپ نے زندگی کا وہ کٹھن وقت گزارا ہوتا ہے جو آپ نے ابھی تک نہیں گزارا۔ وہ آپ کی پریشانیوں میں آپ کی بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔ اس دنیا میں باپ ہی وہ واحد شخص ہے جو چاہتا ہے کہ آپ اس سے زیادہ کامیاب ہوں۔ جتنا صحیح اور مخلص مشورہ باپ دے سکتا ہے کوئی اور نہیں دے سکتا، اس لیے جب بھی کوئی پریشانی آئے اپنے والد سے ضرور مشورہ کریں، اُن سے بہتر کوئی غمخوار کوئی دردمند و ہمدرد نہیں۔ اس لیے نوجوانو، اپنے باپ کی عزت کریں۔ احترام کو ملحوظ خاطر رکھئیے۔