• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باپ کی محبت، شفقت، قربانیوں کے اعتراف اور محبت کے اظہار پر خصوصی تحریر

وہ محبت جو بغیر کسی صلے کے کی جاتی ہے۔ اس میں اِنسان محبت کی ایسی داستان رقم کرتا ہے جو راتوں کی نیندیں اُڑا دیتی ہے، رُکے بغیر تھکے بغیر، مشکلات کی پروا کئے بغیر۔ ہر وقت، ہر موسم، ہر حال میں۔ دل میں محبت ہونٹوں پر دُعا، حوصلے اور ہمت کے ساتھ مسلسل محنت اور مشقت کئے جانے کا نام ہے والد۔ اَشک کو بارش میں بہا کر، درد کو دل میں چھپا کر حوصلہ اور ہمت کی چٹان نظر آئے وہی تو ہے ابّا جان جو کربلائے زیست میں اَبر بہار ہو وہی تو ہے پدر جان، جن کے مضبوط بازو، جن کے چوڑے شانے، جن کی روشن خواب دیکھتی آنکھیں ہمیں تراوٹ، توازن اور تحفظ فراہم کریں وہی تو ہیں ابّو جان جو فکر معاش کی تلخیوں میں گم ہو کر ہمارے مستقبل کے سنہری سپنے بُنے وہی تو ہے باپ۔ 

باپ ایک رحمت خداوندی ہے جو سدا سر پر سائباں کی طرح سایہ دیتا ہے۔ ایک مقدس محافظ جو ساری زندگی خاندان کی نگہبانی کرتا ہے۔ حقیقت میں باپ دُنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچّوں کی پرورش اور ان کے روشن مستقبل کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ اس کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو بہترین آسودہ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر، ایک مقام حاصل کر سکیں۔ باپ ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کے سرد و گرم سہہ کر اپنے بچّوں کو پھل اور سایہ فراہم کرتا ہے۔

مجھ کو چھائوں میں رکھا اور خود جلتا رہا دُھوپ میں

میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے رُوپ میں

والد ایک اُمید، یقین، اعتماد اور حوصلے کا نام ہے جو ہمیں زندگی کے دُشوار راستوں پر خوف اور پریشانی سے بچا کر سر اُٹھا کر چلنا سکھاتا ہے۔

اُنگلی پکڑ کر چلانا، کاندھے پر بٹھانا، گڑیوں کا گھر بنانا، بانہوں میں جھولا جھولانا، فٹ بال کھیلنا، سائیکل چلانا، باغ میں گھمانا، لیڈو اور کیرم کھیلنا، اس میں صرف ہمارا جیتنا کیا ممکن ہو سکتا ہے ابّا کے بغیر…؟

باپ ایک سائبانِ شفقت ہے، جس کے سائے تلے بچّے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں باپ ہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنی ساری زندگی اپنی اولاد کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ جو اولاد کی بہترین پرورش، ان کی راحت، ترقّی اور کامیابی کےلئے ہمہ وقت کوششوں، کاوشوں اور مشقتوں میں مصروف رہتا ہے۔ والد چاہے معاشی طور پر کمزور ہی کیوں نہ ہو اپنی اولاد کےلئے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی خواہشات کو پورا کرتا ہے۔ ماں محبت ہے تو باپ خلوص۔ 

باپ دُنیا کا وہ واحد شخص ہے جو خود سے زیادہ اپنی اولاد کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ جو کامیابی میں ہمارے پیچھے اور مشکل میں ہمارے آگے کھڑا ہوتا ہے اپنے بچّے کی ایک خواہش، ایک خوشی ایک مسکراہٹ کی خاطر وہ کسی بھی مشقت سے نہیں ہچکچاتا۔ نہ صلے کی تمنّا نہ انعام کا لالچ۔ بس بے غرض محبت۔ ہر باپ کی خواہش اور اس کا خواب ہوتا ہے کہ اس کی اولاد اس معاشرے میں باعزت زندگی گزارے۔ وہ اپنے اہل و عیال اور بچّوں کو پالنے کی خاطر اپنا آرام، چین، کھانا پینا، پہننا اوڑھنا سب بھول کر صرف یہ سوچتا ہے کہ اپنے بچّوں کو اچھا لباس، اچھی خوراک اور اچھی تعلیم مہیا کر سکے۔

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ

میرے بچّے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

دیکھا ہے کبھی ابّا کو نم آنکھوں کے ساتھ بےوجہ قہقہہ لگاتے ہوئے۔ اچھے کپڑوں کو ناپسند کر کے پُرانے کپڑوں کو فخر سے پہنتے ہوئے۔ اچھا کھانا اپنے سامنے سے اُٹھا کر اپنے بچّوں کے سامنے کرتے ہوئے۔ تھکن کے باوجود بچّوں کے چھوٹے چھوٹے مسئلے حل کرنے کیلئے تازہ دَم نظر آتے ہوئے۔ اپنی تکالیف کو چھپا کر مشکل حالات میں بھی اپنے بچّوں کو ہر دُکھ، ہر تکلیف سے بچانے میں مصروف۔ 

یہ اپنے بچّوں کی آنکھوں کو پڑھ کر خواہش کا پتا کر لیتا ہے۔ اور اس خواہش اس خواب کو پورا کرنا اپنا ایمان بنا لیتا ہے۔ اپنے بچّوں کو زمانے کی سختیوں سے بچاتا ہے۔ بھرے جہاں میں باپ ہی تو شفقت، نعمت اور جنت کا سایہ ہے۔ باپ کتنا بھی بوڑھا ہو جائے وہ گھر کا سب سے مضبوط ستون ہوتا ہے۔

اس کائنات کی سب سے حسین تصویر دیکھنی ہو تو کبھی بغور اس باپ کا چہرہ دیکھیں جو اپنے بچّوں کی کامیابی سے خوشی اور فخر سے لبریز احساس کی تصویر بن جاتا ہے اور خصوصاً جب بیٹیاں کامیابی حاصل کرتی ہیں تو فخر اور خوشی کی انتہا میں آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ہی دراصل وہ تمغہ ہے جو وہ اپنے سینے پر شان سے سجاتا ہے۔ 

یقیناً باپ وہ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اُونچائی تک خواب تو سبھی کی آنکھوں میں بستے ہیں، مگر کم لوگ ہی اپنے خوابوں کو حقیقت کا رُوپ دینے کا ارادہ کر پاتے ہیں۔ وہ ہمارے والد ہی ہوتے ہیں جو ہماری کامیابیوں کے خواب دیکھتے بھی ہیں اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کی کوشش میں زندگی بسر کر دیتے ہیں۔ دین اسلام میں باپ کو بڑا رُتبہ حاصل ہے۔ احادیث مبارکہ میں باپ کی ناراضگی کو اللہ کی ناراضگی اور باپ کی خوشنودی کو رَبّ تعالیٰ کی خوشنودی قرار دیا گیا ہے۔

سورۃ بنی اسرائیل میں ارشادِ رَبّانی ہے ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو بلکہ ان سے نرمی سے بات کرو اور اپنے بازوئوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلائو اور ان کیلئے یوں دُعا کرو۔ اے میرے رَبّ تو ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں مجھ پر رحمت اور شفقت کی۔

ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں۔

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ذلیل و رُسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رُسوا ہو، وہ شخص ذلیل و رُسوا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کون رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔

سچ ہے؎

ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں

باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر درازکرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے۔ نبی کریمﷺ نے باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ باپ جنت کا دروازہ ہے چاہے تم اس کو ضائع کر دو یا اس کی حفاظت کرو۔

ہمارے والد تو ہماری زندگیوں کے وہ تابندہ سُورج ہیں جن کی کرنیں ہماری زندگیوں میں اُجالا کرتی ہیں۔ یہ کرنیں گرم تو ضرور ہوتی ہیں، مگر یہ تابندہ سُورج نہ ہوں تو ہماری زندگیوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کسی نے دُرست ہی کہا ہے کہ۔ والد کے سامنے اُونچا نہ بولو ورنہ اللہ تمہیں نیچا کر دے گا۔ والد کی سختی برداشت کرو تاکہ تم باکمال بن سکو۔ 

والد کا احترام کرو تا کہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے۔ والد کی باتیں غور سے سنو تا کہ دُوسروں کی باتیں نہ سُننی پڑیں۔ والد کے سامنے نظریں جھکا کر رکھو تا کہ اللہ تمہیں دُنیا والوں کی نظر میں اُونچا کر دے۔ باپ سے بہتر کوئی دوست، کوئی دردمند، کوئی ہمدرد، کوئی غمخوار، کوئی اُستاد نہیں۔ ہمارے والد ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہیں جن سے ہم زندگی کا سبق سیکھتے ہیں اور زندگی میں کامیابی حاصل ہونے پر اپنے آپ کو دُنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھتے ہیں۔

عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ہمارے والد دُنیا کے سب سے اچھے ابّا ہوتے ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں، بہت محبت کرتے ہیں۔ ان کا پیار کرنا، سینے سے لگانا، آنسو پونچھنا، خیال کرنا ہماری ہمت بڑھاتا ہے۔ جب ہم بڑے ہوتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ابّو خیال تو رکھتے ہیں مگر غصہ بھی کرتے ہیں اور ان میں برداشت بھی کم ہے اور جب ہم جوان ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ ابّا کو ہمارے مسائل، ضرورتوں اور تکلیفوں کا احساس ہی نہیں۔ یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔ کہاں ہو…؟ کب آئو گے؟ 

زیادہ دیر کیوں ہوئی جیسے سوالات ہمیں انتہائی فالتو اور فضول لگتے ہیں اور ہم ان سے چڑنے لگتے ہیں۔ باہر گرمی ہے لُو لگ جائے گی، باہر سردی ہے سوئٹر پہن کر نکلو جیسی باتیں ہمیں بیزار کر دیتی ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ابّا جدید دور کے تقاضوں سے آشنا نہیں ہیں۔ انہیں ہر کام، ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے اور پھر جب ہم خود باپ بن جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بچّوں کی تربیت کتنا مشکل کام ہے۔ اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ابّا بہت دُوراندیش اور عقلمند تھے اور انہوں نے ہماری پرورش اور تعلیم و تربیت بہترین طریقے سے کی ہے۔ اس وقت پتہ چلتا ہے کہ وہ تو سایہ دار درخت تھے اور ہم ننھی کونپل جسے کھلنے تک اس کے مضبوط تنے سے ہی لپٹ کر رہنا تھا۔

بچّے عموماً اپنے باپ کو اپنا رول ماڈل بناتے ہیں اور ان جیسا ہی بننا چاہتے ہیں۔ ان ہی کے نقش قدم پر چل کر زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ جن گھروں میں والد بچّوں کی تربیت میں فعال کردار ادا کرتے ہیں وہ بچّے تعلیم میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ انہیں اچھے بُرے کی تمیز سکھا کر اپنی مرضی اور سوچ کے مطابق آگے بڑھنے اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی آزادی دیں۔ بچّے کی پرورش میں باپ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ 

باپ کے رُتبے پر فائز ہونے کے بعد اس کے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے۔ بچّے کی پہلی درسگاہ اس کا گھر ہوتی ہے۔ ایک بچّے کو اعتماد اور اعتبار کے ساتھ بڑے ہونےکےلئے ایک شفیق اور ہمدرد باپ کی ضرورت ہوتی ہے جو بچّے کی فلاح کا خیال رکھے۔ اس کے مزاج میں نرمی بھی ہونی چاہئے تا کہ بچّے اپنے باپ کو اپنا دوست سمجھیں۔ اور اپنے ذاتی مسائل، پریشانیاں اور دل کی بات باپ کے سامنے کرنے سے نہ ہچکچائیں۔ 

بچّوں کی تربیت میں تھوڑی سختی ضروری ہے مگر اس میں اتنی شدّت نہیں ہونی چاہئے کہ بچّے باپ سے دُور ہونے لگیں۔ یہ فاصلے خصوصاً آج کے زمانے میں بہت سے مسائل کو جنم دے سکتے ہیں۔ سخت رویہ اور بے جا پابندیاں لگانے سے بچّے باغی ہو جاتے ہیں اور منفی رویئے اپنا لیتے ہیں۔ اسی طرح جہاں باپ نرم خو، شفیق، بچّوں کے مسائل میں دلچسپی لینے والے، نظر رکھنے اور خیال کرنے والے ہوتے ہیں وہاں بچّے اپنی زندگیوں میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔

جہاں باپ اپنے بچّوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور صرف کمانے کی مشین بن جاتے ہیں وہاں بچّے اکثر جذباتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن دُوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ والدین جب ساری زندگی اپنے بچّوں کو پروان چڑھانے میں گزار کر بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو بچّوں خصوصاً لڑکوں کا رویہ والدین کے ساتھ نامناسب ہو جاتا ہے۔ 

ابّا آپ سمجھتے نہیں ہیں۔ ابّو آپ کو کیا معلوم۔ بابا آپ ہروقت ناراض ہوتے رہتے ہیں جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں اور کچھ بدبخت بچّے ایسے بھی ہیں جو اس سے بھی زیادہ ناروا سلوک روا رکھتے ہیں میڈیا پر ماں باپ پر تشدد کی المناک خبریں بھی دیکھنے اور سُننے کو ملتی ہیں۔ والدین سے بدسلوکی، بدزبانی اور دل دُکھانے والی باتیں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ جائیداد کے لیے قتل تک ہو جاتے ہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی اولڈ ہائوسز بن رہے ہیں۔ اولاد والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے یا اولڈ ہائوسز میں جمع کروا دیتی ہے اور اس فعل پر کوئی شرمندگی و شرمساری بھی نہیں۔ بہت سے بچّوں کو باپ کی اہمیت بہت دیر میں سمجھ آتی ہے۔ اتنی دیر میں کہ وہ انہیں چھونے، محسوس کرنے اور ان کی اذیت کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بہت دیر میں سمجھ آتا ہے کہ ہماری بدتمیزی پر ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ یا انہوں نے ہمیں چھاتی سے لگانے کو دل میں کئی بار دل میں سوچا ہوگا جب ہمیں فرصت نہیں تھی۔ 

مگر ان حالات میں بھی بہت سے خوش بخت بچّے ایسے بھی ہیں جو اپنے والدین کی ایسی خدمت کرتے ہیں جیسی انہوں نے بچپن میں ان کی، کی تھی۔ ان کے احسانات یاد رکھتے ہیں، ان کی عزت اور تعظیم کرتے ہیں۔ ان کی رائے کو مقدم رکھتے ہیں، ان سے مشورے لیتے ہیں۔ ہر معاملے میں انہیں ترجیح دیتے ہیں۔ محبت اور توجہ سے ان کی بات سُنتے اور نرمی سے جواب دیتے ہیں۔ ان کے لئے دُعا کرتے ہیں اور ان سے دُعائیں لیتے ہیں۔

ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر دُنیا میں ماں کا کوئی نعم البدل نہیں تو باپ بھی اولاد کے لئے قدرت کی عظیم نعمت ہے۔ والدین سے جڑی محبت اور احساسات کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ترین کام ہے۔

فادرز ڈے باپ کی محبت، شفقت اور قربانیوں کے اعتراف اور محبت کے اظہار کا عالمی دن ہے۔ اس دن اپنے والد کی بے پناہ انمول اور پُرخلوص محبت کے جواب میں ان سے عزت، تعظیم اور محبت کا اظہار ضرور کریں چھوٹے بچّوں کے ساتھ بڑی عمر کے بچّے بھی اس دن کو بھرپور طریقے سے منائیں۔ اس پورے جہان میں سراپا شفقت اور پیکر ایثار کو سلام پیش کریں۔ وقت نکال کر انہیں کارڈ اور پھول پیش کریں۔ 

اگر وہ مطالعے کے شوقین ہیں تو انہیں اچھی کتابیں تحفہ میں دیں۔ اگر باغبانی کے شوقین ہیں تو ان کے لئے کچھ نئے پودے خرید لائیں اور ان کی دیکھ بھال میں حصہ لیں۔ اپنے بابا کو گھر سے باہر لے کر جائیں۔ ان کی پسند کی جگہ پر انہیں کھانا کھلائیں۔ یا گھر میں ان کی پسند کا کھانا منگوائیں۔ یا پھر تھوڑی سی محنت اور محبت کے ساتھ ان کے لئے کھانا بنائیں۔

ابّا جان کے لئے ان کی پسند کی کوئی پرفیوم، کوئی گھڑی یا پھر کوئی ایسی چیز جو وہ خواہش رکھنے کے باوجود نہ خرید سکے ہوں خرید کر تحفہ دیں۔

کچھ وقت پدر جان کے ساتھ گزاریں ان سے ان کی پسند کے موضوعات پر گفتگو کریں۔ زیادہ سُنیں، بولیں کم… ابّو اگر کھیل کے شوقین ہیں تو ان کے ساتھ کھیل کھیلیں۔ مثلاً تاش شطرنج کیرم وغیرہ۔

والد محترم کا شکریہ ادا کریں۔ انہیں بار بار اس بات کا احساس دلائیں کہ آپ جو کچھ ہیں ان کی محبتوں، محنتوں اور احسانات کی وجہ سے ہیں۔ یہ اعتراف ہم پر فرض بھی ہے اور ضروری بھی۔ دیکھئے یہ اعتراف ان کی آنکھوں میں روشنی، لبوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر کیسی آسودگی لے آتا ہے۔

یہی آسودگی تو زندگی ہے… ساتھیو! اس فادرز ڈے پر یہ عہد کریں کہ والد کے سامنے ہمارے ماتھے پر شکن اور انداز میں بے زاری نہیں آئے گی۔ صرف ایک دن نہیں، ہر روز ہر دن سارا سال اپنے رویئے اپنی گفتگو میں تعظیم، عزت اور توقیر کے ساتھ اپنے والد کو سلام پیش کریں گے۔ جن کی ہر خواہش، ہر دُعا، ہر تمنّا اولاد سے شروع ہو کر اولاد پر ہی ختم ہو جاتی ہے… ابّا تمہیں سلام۔

بابا تمہیں سلام۔ ابّو تمہیں سلام، پدر جان آپ کی خاموش محبت کو سلام