ان دنوں ہمارے میڈیا میں سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی سنگین بیماری زیر بحث ہے بالخصوص سوشل میڈیا میں تو آئے روز اس نوع کی خبریں آتی ہیں کہ’’ مر گیا، مر گیا ‘‘اور پھر وضاحتی تردید آ جاتی ہے ۔ بلاشبہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس نے بالآخر ہر کسی کو نگل لینا ہے ۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پرویز مشرف چاہے جتنا بڑا ڈکٹیٹر تھا مر اسی دن گیا تھا جب 12اکتوبر 1999 کے روز اس نے آئین شکنی کرتے ہوئے منتخب پارلیمینٹ کو توڑا۔ آئین، پارلیمینٹ، جمہوریت یا قانون میں جان رہنے دی گئی ہوتی تووہ اپنے اس سنگین جرم کی کڑی سزا پاتالیکن ہماری قوم کی فکری صلاحیتوں کو شاید غربت و جہالت چاٹ گئی ہے کہ یہاں آئین شکنی کے مرتکب نہ صرف یہ کہ زندگی بھر دندناتے رہے بلکہ مرنے کے بعد بھی قومی پرچم میں لپیٹ کر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ دفنائے جاتے رہے۔
برطانیہ کے ایک طاقتور جنرل اولیور کرامویل (1658تا 1599) نے آئین شکنی کرتے ہوئے 1653ء میں منتخب پارلیمینٹ کو توڑا اور 1658میں مرنے پر پروٹوکول کے ساتھ ویسٹ منسٹرایبے کے شاہی قبرستان میں دفن ہوا مگر اس عظیم قوم نے 30جنوری 1661ء کو اس کی لاش قبر سے نکال کر ویسٹ منسٹر کے مین چوک میں لٹکادی۔
اگر کسی قوم کے خمیر میں اس نوع کی روایات ہوں تو ڈکٹیٹر ذہنیت اپنی قوم پر حملہ آور ہونے سے قبل ایک سو ایک بار سوچے گی۔
2013ء میں جب ن لیگ عوامی اعتماد کے ساتھ برسراقتدار آئی تو درویش نے اپنا کالم اس عنوان سے جنگ میں لکھا :’’قوم ڈکٹیٹر مشرف کو جیل میں دیکھنا چاہتی ہے‘‘ لیکن ہماری سوسائٹی میں جبر کتنا بارسوخ ہےاس کا ادراک پرویز مشرف پر ہاتھ ڈالنے والوں کے ساتھ روا رکھے گئے ’’حسن سلوک‘‘ سے کیا جاسکتا ہے،تین مرتبہ منتخب ہونے والا وزیر اعظم نواز شریف اس کی قیمت آج تک بھگت رہا ہے۔
بلاشبہ پہلے تینوں ڈکٹیٹروں نے اپنے لئے جیسے تیسے منتخب ایوانوں سے انڈیمینٹی لے لی تھی خود پرویز مشرف نے بھی پہلی آئین شکنی بخشوانے کا اہتمام کرلیا تھا لیکن موصوف نے دوبارہ جو آئین شکنی کروائی پارلیمینٹ نے اسے شرف قبولیت بخشنے سے انکار کردیا ، اسلئے سزا بنتی تھی مگرکٹہرے کی طرف جاتی گاڑی کو ہسپتال کی طرف موڑ دیا گیا اور پھر انہیں بیرون ملک بھیج دیا گیا۔
بعد ازاں جوڈیشری کا وقار بحال کرنے کی کاوش میں جسٹس وقار سیٹھ کی خصوصی عدالت نے دسمبر 2019 میں جو تاریخی فیصلہ صادر کیا وہ ایک لحاظ سے جنرل کرامویل کیخلاف سنائے گئے تاریخ ساز فیصلے کا پر تو تھا مگر افسوس یہ یونائیٹڈکنگڈم نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا، اس کے بعد جو ہوا اس پر خاموشی ہی بہتر ہے۔
آج ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کی بیماری کے حوالے سے جو بیان دیا ہے اور جس پر میڈیا میں بہت لے دے ہو رہی ہے، اتنے راسخ الخیال لوگ میاں صاحب سے پہلے ذرا گیلانی صاحب کی طرف رجوع فرمائیں جو سرنگونی کی آخری حدوں کو چھورہا ہے جیالوں کی غیرت جاگتی ہے تو پوچھیں اپنے سابق وزیر اعظم سے ....رہ گیا نواز شریف تو وہ آئین کی سربلندی، پارلیمینٹ کی بالادستی اور عوامی رائے کی طاقت کو منوانے کے لئے اب تک جو کچھ کر چکا ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ،آج نواز شریف سے مظلوم اس دنیا میں شاید ہی کوئی سیاستدان ہو۔ یہاں تو ایسے لالچی طاقتور ہو گزرے ہیں جو محض اپنی ایک سال کی نوکری کیلئے ملک و قوم اور پورے سسٹم کوتہہ وبالا کردیتے ہیں۔
آئین کی عین مطابقت میں ہٹائے جانے پر بھی کھلاڑی لوگ پھٹ رہے ہوتے ہیں۔ یہ نواز شریف کا جگر اور حوصلہ ہے کہ آئین شکنی کرتے ہوئے اس سے دو تہائی اکثریت والی حکومت چھین لی گئی، عوام کا مقبول ترین لیڈر ہوتے ہوئے پورے قومی میڈیا پر بلیک لسٹ کرتے ہوئے کردار کشی کا کونسا گھنائونا الزام ہے جو اس پر عائد نہیں کیاگیا؟
اس کے دشمن بھی میڈیا کے سامنے یہ کہتے سنائی دیتے رہے کہ وہ آج بھی اس ملک کا وزیر اعظم ہوتا اگر جبر کے سامنے سرنگوں ہو جاتا۔یہ بھی اس شخص کی قائدانہ عظمت ہے کہ اپنے بدترین اور کینہ پرور دشمن کے حوالے سے یہ کہہ رہا ہے کہ میری اس سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں میں منتقم نہیں ہوں، میں نہیں چاہتا کہ جو صدمے مجھے پہنچے کسی اور کو بھی وہی دکھ پہنچیں۔
تنقیدی تجزیہ کار ذرا ان الفاظ کے کرب کو محسوس کریں جب نعرے لگائے جاتے تھے نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر جب قدم بڑھایا اور پیچھے مڑ کے دیکھا تو کھوکھلےنعرے باز سب غائب تھے۔ اس شخص نے کسی کو منع تو نہیں کیا کہ وہ ڈکٹیٹر کے خلاف آواز نہ اٹھائے مگر شاید’’ انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔‘‘