• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پولیس کی بڑی کامیابی، دو بلائنڈ قتل کا سراغ لگا لیا

کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک باپ اپنے ہی 6 سالہ بیمار بیٹے کو فائرنگ کرکے موت کی آغوش میں دھکیل دے گا۔ وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ وہ اس کا علاج کرانے سے قاصر ہے اور بیٹے کو روز روز علاج اور پریشانی سے نجات دلانے کے لیے ایک بار ہی اسے ابدی نیند سلادیا، صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ پسند کی شادی نہ کرانے پر بیٹا اپنے ہی باپ کو راستے کی رکاوٹ سمجھ کر قتل کردے گا ، یہ ایسے واقعات ہیں، جنہیں سن کر پڑھ کر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خون سفید ہوگیا ہے۔ 

اس طرح کے واقعات اکثر ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں قتل کے بعد تدفین بھی کردی جاتی ہے اور قتل بھی کسی اور کے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہوتے مقدمہ درج کرادیا جاتا ہے، جس کے بعد جب پولیس اپنی روایتی موجودہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کیس کی تفتیش کا آغاز کرتی ہے، تو حیرت انگیز اور چونکا دینے والے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ 

سکھر میں باپ کے ہاتھوں بیٹے کا قتل اور بیٹے کے ہاتھوں باپ کا قتل ایسے واقعات ہیں، جو بہ ظاہر پولیس اور لوگوں کے سامنے ایک عام قتل کے واقعات تھے، لیکن ایس ایس پی سنگھار ملک کی ضلع کے تمام پولیس افسران خاص طور پر تھانہ انچارجز کو سختی سے یہ ہدایات کیں کہ قتل کے واقعے کا مقدمہ درج کرنے کے بعد مکمل میرٹ کی بنیاد پر اس کی صاف و شفاف تفتیش کو یقینی بنایا جائے اور روایتی تفتیش کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے مدد لی جائے تاکہ کسی بےگناہ شخص کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور پولیس اصل قاتل تک پہنچ کر اپنا فرض ادا کرے۔ 

سکھر کے نواحی علاقے صالح پٹ اور پنوعاقل میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے 2 دل خراش قتل کے واقعات جن میں سے ایک میں باپ نے تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا اپنے بیٹے کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، جب کہ دوسرے واقعہ میں بیٹے نے باپ کو تیز دھار آلہ سے وار کرکے بے دردی سے قتل کردیا، جو معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے رحمی اور سفاکیت کا نوحہ ہے۔ بیٹے کو پستول کے فائر کرکے قتل کرنےوالے والد نے خود کشی کا ڈراما رچایا اور بعد میں اپنے ہی رشتے دار کےخلاف مقدمہ درج کرادیا، جب کہ باپ کو قتل کرنے والے سنگ دل بیٹے نے پولیس کی جانب سے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ 

ان دونوں بلائنڈ اور پولیس کے لیے معمہ بنے کیسوں کی نگرانی نوجوان ایس ایس پی سنگھار ملک، جو کراچی میں اپنی تعیناتی کے دوران متعدد بڑی کامیابیاں اپنے دامن میں سمیٹے ایس ایس پی سکھر تعینات ہوئے ہیں۔ 

انہوں نے ان کیسوں کی خود نگرانی کا فیصلہ کیا اور دونوں واقعات کے اصل محرکات اور قتل میں ملوث ملزمان تک پہنچنے کے لیے ڈی ایس پی سطح کے افسران پر مشتمل پولیس پارٹیاں تشکیل دیں اور دونوں ٹیموں کو شفاف تحقیقات کا حکم دیا۔ 

صالح پٹ واقعہ میں ڈی ایس پی روہڑی کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی، انکوائری کمیٹی نے قتل کے محرکات جاننے کے لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا، تو حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے!! پولیس کے مطابق تحیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا 6 سالہ معصوم شہزاد کا قاتل کوئی اور نہیں، بلکہ اس کا اپنا باپ اللہ دتہ ہی ملوث ہے، باپ نے اپنے ہی سگے بیٹے کو قتل کردیا تھا۔ 

تفصیل کچھ یُوں ہے کہ تین ماہ قبل تھانہ صالح پٹ کی نواحی گاؤں داحل وارو کے علاقے میں باپ نے پستول کے فائر کرکے اپنے 6 سالہ بیٹے کو قتل کردیا اور بیٹے کی تدفین کرکے ملزم نے پہلے قتل چھپانے کے لیے خودکشی کا ڈراما رچایا اور پولیس کو بیان دیا کہ اس کے 6 سالہ بیٹے نے خودکش کر لی ہے، جب کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں شکوک پیدا ہوئے کہ خود کشی میں تین گولیاں آگے سے اور وہ بھی مختلف اینگل سے لگی ہوئیں تھیں۔ 

پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ملزم نے بذریعہ عدالت تھانے میں مقدمہ درج کرانے کی استدعا کی اور عدالت نے پولیس کو واقع کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا، جس پر پولیس نے مدعی اللہ ڈتو کی فریاد پر مقدمہ درج کرلیا، جس میں اس نے اپنے سالے مظہر کو نامزد کروایا اور شک ظاہر کیا کہ اس کے بیٹے کو اس کے برادر نسبتی (سالے) نے قتل کیا ہے۔ 

اللہ دتہ نے پولیس کو وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس نے پنجاب کے علاقے لیاقت پور کی رہائشی شمائلہ سے 7 سال قبل پسند کی شادی کی تھی، جو کہ اس کی دوسری شادی تھی۔ اس شادی کے بعد اس کے سالے اس کے دشمن بن گئے اور مختلف اوقات میں کاروکاری کے الزام میں قتل کی دھمکیاں دیتے تھے کہ قتل کردیں گے۔ 

پولیس نے مقدمے کے بعد ملزم مظہر کو گرفتار کیا، جو ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوگیا، دوران تفتیش پولیس کو مدعی و ملزم کے بیانات میں تضادات اور پیش آنے والے واقعہ کے متعلق بہت سے ابہام کا سامنا کرنا پڑا، جس پر کمیٹی نے فارنزک سہولتوں اور جدید ترین ایجادات کا استعمال کیا اور معمہ کو سلجھانے کے لیے کوشش کی، جس کے نتیجے میں یہ بات عیاں ہوئی کہ 6 سالہ بیٹے کو قتل کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا خود کا باپ ہے، جس نے اپنے ہی لختِ جگر کو پستول کے فائر کرکے قتل کیا اور بیٹے کو دفنا کر پہلے خودکشی کا ڈراما رچایا اور بعد میں جب بات بگڑتی دیکھی، تو اپنے ہی سالے کے خلاف مقدمہ درج کرادیا۔ 

پولیس جب معاملے کی تہہ تک پہنچی اور اصل ملزم یعنی مقتول بچے کے والد کو گرفتار کیا، تو ملزم اللہ ڈتہ نے اعتراف کیا کہ میرا 6 سالہ بیٹا تھیلیسیمیا کے مہلک مرض میں مبتلا تھا، جس کے علاج سے تنگ آکر میں نے انتہائی قدم اٹھایا اور بعد میں اپنی جان بچانے کے لیے اپنے سالے کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا ہے۔ 

جب کہ دوسرا واقعہ سکھر کے نواحی علاقے پنوعاقل میں پیش آیا، پولیس کے مطابق عبدالرحمن نے اپنے والد شہزاد کو تیز دھار چاقو کے وار کرکے بے دردی سے قتل کیا اور اس کے قتل کا الزام اپنے مخالفین پر لگادیا۔ اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے بھی ڈی ایس پی کی نگرانی میں انکوائری کمیٹی قائم کی گئی، جس نے قتل کے واقعہ کا تمام پہلوؤں سے بغور جائزہ لیا اور اصل قاتل تک جاپہنچی، پولیس نے جب مقتول کے بیٹے کو گرفتار کیا تو اس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ 2 دن قبل والد سے جھگڑا ہوا تھا،میں اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ تاہم میرا والد اس پر راضی نہیں تھا اور وہ رکاوٹ بنا ہوا تھا، جس پر میں نے اپنے ہی والد کو قتل کردیا اور میرا راستہ صاف ہوگیا۔ پولیس نے ملزم عبدالرحمن کے قبضہ سے آلہ قتل بھی برآمد کیا۔

سکھر پولیس نے خاص طور پر ان دونوں بلائنڈ کیسز کی انکوائری ٹیم نے جس پیشہ ورانہ انداز میں اپنی خدمات انجام دیں، وہ قابل تحسین ہے اور اس قسم کے واقعات لمحہ فکریہ ہے اور معاشرے کے تمام بولٹ طبقات کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی بے حسی، بے رحمی، سفاکیت، خود غرضی جیسی مہلک بیماریوں کا علاج کریں۔ 

ایس ایس پی سنگھار ملک کا کہنا تھا کہ عام طور پر قتل کے واقعات میں پولیس کا شک سب سے پہلے اس شخص پر جاتا ہے، جسے سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہوتا ہے ۔ تاہم یہ سوچنا کہ ایک والد اور ایک بیٹا اپنے ہی سگے رشتوں کو یوں قتل کردےگا، مگر جب ہم نے معاملے کی تحقیقات کی اور کڑی سے کڑی ملتی گئی، تو پوری کہانی کسی کتاب کی طرح واضح ہوتی گئی اور پولیس اپنی کاوشوں کی بدولت اصل ملزمان تک پہنچ گئی۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید