اسلام آباد (رپورٹ، رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نےʼʼ ملک بھر کی احتساب عدالتوں سے نیب ریفرنسز کے ملزمان کی بریت ʼʼسے متعلق مفصل رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نےریمارکس دیئے ہیں کہ نیب حکام ملزمان کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتے ہیں ، کیس ثابت نہ ہونے پر ملزمان عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں.
کیا احتساب عدالتوں سے ملزمان کی بریت کا کوئی حساب کتاب ہوتا ہے ؟،چیف جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ اے ملک نے منگل کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دور میں شروع کئے گئے .
ʼʼصاف پانی پراجیکٹ میں مبینہ بدعنوانی کے ذریعے قومی خزانے کو مجموعی طور پر 345ملین روپے کا نقصان پہنچانے سے متعلق نیب ریفرنس کے پانچ ملزمان ملزمان ظہیر الدین،ناصر قادر،مسعود اختر،سلیم اختراور خالد نعیم کی نیب کیس میں لاہور ہائی کورٹ سے ہونے والی ضمانتوں کی منسوخی کیلئے ڈھائی سال قبل دائر کی گئی .
نیب کی اپیلوں کی سماعت کی تو نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ اپیلیں ڈھائی سال پہلے دائر کی گئی تھیں ، اسی دوران احتساب عدالت لاہور نے کیس کے تمام ملزمان کو عدم ثبوت کی بناء پر بری کردیا تھا ،اس لئے یہ اپیلیں اب غیر موثر ہو چکی ہیں،عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ ملزمان عدالت سے کب بری ہوئے تھے، جس پرفاضل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزمان 31 جنوری 2022 کو احتساب عدالت لاہور سے بری ہوئے تھے .
فاضل چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا نیب کے پاس احتساب عدالتوں سے ملزمان کی بریت کا کوئی حساب کتاب ہوتا ہے ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس بھی دیے کہ نیب حکام ملزمان کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتے ہیں
لیکن بعد میں کیس ثابت نہ ہونے کی بناء پر ملزمان عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں،جس پر فاضل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیب کے بیورو آفسز میں ملزمان کی بریت کا تمام ریکارڈ رکھا جاتا ہے،بعد ازاں عدالت نے چیئرمین نیب سےملک بھر کی احتساب عدالتوں سے نیب مقدمات کے ملزمان کی بریت سے متعلق مفصل رپورٹ طلب کر تے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔