• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں ملک میں جس طرح سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی، جلسوں اور لانگ مارچوں کی بہار آئی ہوئی تھی، اب مخلوط حکومت کے قیام کے بعد ان جماعتوں کی سیاسی سرگرمیاں بھی تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہیں کیونکہ ظاہر ہے اب وہ جماعتیں حکومت کے مزے لینے میں مصروف اور ان کی سیاسی ترجیحات بدل چکی ہیں، اس مخلوط حکومت کے قیام سے پہلے جس طرح جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے سیاسی سرگرمیاں تیز کی ہوئی تھیں اور بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اگلے الیکشن کیلئے کارکنوں کو تیار کیا جارہا ہے۔ 

اب ان تمام اہم جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں پر جمود طاری ہوچکا ہے، یہی حال عوامی نیشنل پارٹی کا بھی ہے جو اس وقت اگر چہ وفاقی حکومت کا حصہ تو نہیں ہے مگر حکومت کی حامی ضرور ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت وفاقی حکومت کی دو اہم جماعتوں یعنی جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے مابین صوبہ خیبر پختونخوا کی گورنر شپ کے معاملہ پر انتہائی کشمکش جاری ہے۔ 

جے یو آئی موجودہ دور میں حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی پالیسی پر گامزن ہے، وفاق میں چار اہم وزارتیں اور قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شپ لینے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام خیبر پختونخوا کی گورنر شپ کے حصول کیلئے بھی پوری طرح سرگرم ہے اور اس کے ممکنہ امیدوار لندن میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ کے طواف بھی کرنے میں مصروف ہیں ،اگرچہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ گورنر کا عہدہ عوامی نیشنل پارٹی کو دیا جائے لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ مولانا فضل الرحمان بنے ہوئے ہیں۔ 

اس ضمن میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان خود پارٹی وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر مذاکرات کرچکے ہیں لیکن تاحال اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے لہذا اب اے این پی گورنر شپ کی دوڑ سے ہی دستبردار ہو گئی ہے اس سے قبل مبینہ طور پر وزارت مواصلات کے معاملے پر بھی اے این پی احتجاجاً وفاقی کابینہ میں شمولیت کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہے اب اس نے گورنر شپ لینے سے انکار کرکے احتجاج ریکارڈ کر دیا ہے، اس سلسلے میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیرحیدر ہوتی نے پیر کے روز زیراعظم شہبازشریف سے ملاقات کی، امیر حیدر ہوتی نے وزیر اعظم کو بتایا کہ ایک عرصہ سے خیبرپختونخوا کی گورنر شپ پر بحث چل رہی ہے اور اس فیصلے پر پہلے ہی بلاوجہ کافی تاخیر ہوئی جس سے گورنر کی تعیناتی کے ایک آئینی اقدام کو متنازعہ بنادیا گیا ہے۔ 

اس لئے اب عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا کی گورنرشپ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، انہوں نے پختونخوا کی گورنرشپ کے حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف کو اے این پی کی باضابطہ معذرت اور موقف سے آگاہ کیا، ملاقات میں وزیراعظم نے ایک بار پھر اے این پی کو کابینہ کا حصہ بننے کی دعوت دی تاہم حیدرہوتی نے وزیراعظم کو بتایا کہ پارٹی پہلے سے ہی اس بارے میں فیصلہ کرچکی ہے اور وہی فیصلہ برقرار رہے گا،بہرحال اس تمام تر صورت حال کے باوجود اے این پی موجودہ حکومت کے اقدامات سے بری الزمہ نہیں ہوسکتی اس کو بھی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پر جوب دینا پڑے گا کیونکہ وہ موجودہ حکومت کا حصہ ہے۔ 

ادھر صوبہ خیبر پختونخوا اور اس کی صوبائی حکومت کو اس وقت ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ سیزن میں صوبہ کے مختلف پہاڑی علاقوں میں جنگلات میں جس طرح آتشزدگی کے واقعات میں تیزی آئی ہے اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین دعویٰ کررہے ہیں کہ جنگلات کو آگ لگانے کے ان واقعات میں صوبائی حکومت ہی ملوث ہے، اپوزیشن کا الزام ہے کہ بلین ٹری سونامی پروگرام میں مبینہ گھپلوں اور اربوں روپے کی کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک طریقہ سے یہ سارا ریکارڈ ضائع کیا جارہا ہے، اس ضمن میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے صوبہ کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کو منظم سازش قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے اور آئی بی کے ذریعے معاملہ کی انکوائری کرکے رپورٹ اسمبلی میں جمع کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

تاہم صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ آتشزدگی کے واقعات کی وجوہات مختلف ہیں ،حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا کے پہاڑیوں میں آگ لگنے کے 283 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر آگ زمین پر خشک گھاس پھوس کو لگی ہے اور اب تک کے تمام واقعات میں حکومتی جنگلات کے صرف 22 درختوں کو نقصان پہنچا ہے، صوبائی حکومت کے مطابق ذاتی عداوتوں کی بنیاد پر قصداً پہاڑیوں میں آگ لگانے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دینے اور بھاری جرمانے عائد کرنے کیلئے متعلقہ قوانین کو مزید سخت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

مزید برآں ایسی تخریبی سرگرمیوں پر آئندہ کیلئے کڑی نظر رکھنے کیلئے اضلاع کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ، صوبائی حکومت کے بقول پہاڑیوں میں آگ لگانے کے واقعات میں 56 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں جبکہ آگ لگانے کے 32 واقعات میں ملزمان کی نشاندہی ہوچکی ہے، اب تک 11 ملزمان گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ 

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ آتشزدگی کے ان واقعات نے نہ صرف لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے بلکہ ماحول دوست سوچ رکھنے والوں کی تشویش میں بھی اضافہ کیا ہے، ملک بھر کے 70فیصد سے زیادہ جنگلات خیبر پختونخوا میں واقع ہیں جو صوبہ کی بہت بڑی دولت ہے، ماحول کو بہتر رکھنے کیساتھ ساتھ ان جنگلات کا صوبہ کی سیاحت کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ہے۔ 

اب اگر خدانخواستہ اس دولت کو نذر آتش کیا جاتا رہا تو بدترین ماحولیات آلودگی کا تو سامنا کرنا ہی پڑیگا صوبہ کی معیشت کو بھی تباہی سے کوئی نہیں روک سکے گا لہذا بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنا کر متاثرہ اضلاع کے دورے کروائے کیونکہ اس معاملہ پر یقیناً سیاست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید